ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکہ میں چینی طلبہ کی مشکلات …(2)

تحریر: ویوین وینگ

ڈینس سائمن کو ایک اور طرح کی تشویش بھی لاحق ہے۔ ’’میری پریشانی یہ بھی ہے کہ ہم چینی قو م کی کوئی مدد نہیں کر رہے کہ وہ ہمیں سمجھ سکے‘‘۔ آج بھی چینی طلبہ کی ایک بھاری تعداد امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ 2022-23ء کے سکول ایئر میں 2 لاکھ 90 ہزار سے زائد چینی طلبہ امریکی اداروں میں پڑھ رہے ہیں؛ تاہم چینی طلبہ کی اکثریت جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے چائنا انیشی ایٹو جیسے پروگراموں کی وجہ سے گہری تشویش میں مبتلا ہے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ چینی نژاد امریکی سائنس دانوں کے خلاف ایک امتیازی رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ بہت سے طالب علموں کے ویزے ٹرمپ دور کے ایک حکم نامے کی آڑ میں منسوخ کر دیے گئے یا انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا گیا۔ صدر ٹرمپ کا یہ حکم نامہ صدر بائیڈن کی حکومت نے بھی برقرار رکھا ہے جو مخصوص چینی یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو امریکہ میں گریجویٹ سٹڈیز میں داخلہ دینے کی ممانعت کرتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ان یونیورسٹیوں کا چینی کی فوج سے خصوصی تعلق ہے؛ تاہم اس لسٹ کو عوام کے لیے جاری نہیں کیا گیا۔ یہ حکم نامہ جو پروکلیمیشن 10043 کے نام سے معروف ہے اور اسی کی وجہ سے امریکہ میں پی ایچ ڈی کرنے والی ایک چینی سکالر شی چن کو سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو ٹرانسپورٹیشن کے میدان میں جدت مثلاً سیلف ڈرائیو کاروں پر ریسرچ کر رہی ہیں۔ وہ آج اپنی ریسرچ لیب اور اپنی قیمتی اشیا سے دور‘ چین میں خوار ہو رہی ہیں۔

شی چن 2018ء میں اس حکم نامے کے جاری ہونے اور اس پر عملدرآمد ہونے سے قبل امریکہ آئی تھیں۔ اس سال کے شروع میں جب چین نے کووڈ کے بعد پہلی مرتبہ پابندیاں نرم کیں اور اپنی سرحدیں باقی دنیا کے لیے کھول دیں تو شی چن اپنی فیملی سے ملنے کے لیے چین واپس گئیں۔ مگر جب انہوں نے امریکہ واپس جانے کی کوشش کی تو بیجنگ میں قائم امریکی سفارتخانے نے انہیں نیا امریکی ویزا دینے سے ہی انکار کر دیا۔ امریکی سفار ت خانے نے ویزا دینے سے انکارکی وجہ صدر ٹرمپ کی طرف سے جاری کیے جانے والے حکم نامے کو قرار دیا۔ اس حکم نامے کے حوالے سے شی چن کا کہنا ہے کہ ہاں‘ میں نے یہ سن رکھا تھا کہ ایسا کوئی آرڈر جاری ہوا تھا جس سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ بی ہینگ یونیورسٹی بیجنگ‘ جو چین کی سپیس اینڈ ایوی ایشن پر ریسرچ کی معروف یونیورسٹی ہے اور جہاں سے شی چن نے انڈر گریجویشن کر رکھی ہے‘ کو بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے۔ شی چن نے یہ امید لگا رکھی تھی کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکہ میں ہی کام کریں گی مگر اب ا ن کا کہنا ہے کہ ’’میں نے ہمیشہ امریکہ کی طرف دیکھا ہے۔ یہ اعلیٰ مہارت یافتہ انجینئرز کے لیے بہترین مواقع فراہم کرتا ہے‘‘۔ مگر اب وہ ایک بے یقینی کا شکار ہیں اور کہتی ہیں کہ معاملہ اتنا بھی سہانا نہیں ہے جتنا میں سمجھتی تھی۔

امریکی حکام اس حکم نامے کا دفاع قومی سلامتی کے نام پر کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان امیدواروں کی تعداد بہت کم ہے جنہیں ویزا دینے سے انکار کیا گیا ہے۔ 2020-21ء کے عرصے میں صرف تین ہزار چینی طلبہ کو ویزا دینے سے انکار کیا گیا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں اس سال 94 ہزار چینی طلبہ کو امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ویزا جاری کیا گیا ہے اور امریکی سفارت خانے کے مطابق یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں 28 ہزار زیادہ ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے مطابق 2019ء میں 1 لاکھ 8 ہزار طلبہ کو امریکہ میں سٹڈی کے لیے ویزا جاری کیا گیا تھا؛ تاہم کچھ سیاستدانوں نے مشورہ دیا ہے کہ چینی طلبہ پر پابندی کا دائرہ مزید وسیع کیا جانا چاہئے اور کئی پولز میں تو امریکی شہریوں کی اکثریت نے چینی طلبہ کی تعداد محدود کرنے کے حق میں رائے دی ہے۔ ہنگ ہوانگ‘ جو 1970ء کی دہائی میں صرف بارہ سال کی عمر میں سب سے پہلے امریکہ آنے والے طلبہ میں شامل تھیں اور اب وہ ایک معرف میڈیا پرسن اور لکھاری ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’چینی طلبہ کی حوصلہ شکنی کرکے امریکہ اپنی تاریخی طاقت کو مجروح کر رہا ہے۔ ان سارے برسوں میں چینی طلبہ جوق در جوق امریکہ آتے رہے ہیں کیونکہ وہ یہاں ایک ایسی آزادی اور برداشت محسوس کرتے ہیں جو انہیں پروان چڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکیوں نے یہ سوچ رکھا ہے کہ و ہ اپنے دماغ میں جاری چین کے خلاف جنگ کو بہر حال جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی آمرانہ رویہ اپنانا پڑے گا‘‘۔

تعلیم کی غرض سے چین جانے والے امریکی طلبہ کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے؛ تاہم امریکہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ اس تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے۔ 2010ء میں صدر براک اوباما نے پانچ سال میں ایک لاکھ امریکی طلبہ کو چین بھیجنے کا اعلان کیا تھا جن کے بارے میں امریکی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ طلبہ چینی امور پر امریکی ماہرین کی اگلی نسل ہو گی‘‘۔ حالیہ برسوں میں اگرچہ غیر ملکی طلبہ کی بڑی تعداد چین کے بارے میں محتاط رویے کا مظاہرہ کر رہی ہے؛ تاہم چین کی ریاستی سکیورٹی کی وزارت نے‘ جو خفیہ پولیس کی نگرانی کرتی ہے‘ اس موسم گرما میں یہ اعلان کیا ہے کہ پوری سوسائٹی کو مشتبہ غیر ملکی جاسوسوں کے خلاف متحرک ہونا چاہئے۔ صدر شی جن پنگ کی طرف سے تعلیمی آزادیوں کو محدود کرنے کے فیصلے کے بعد چین میں قائم غیر ملکی یونیورسٹیوں کے کیمپسز کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ امریکی طلبہ کو چین بھیجنے کا امریکی جوش بھی ماند پڑ گیا ہے۔ 2019ء میں شارزمن سکالرز فیلوشپ پروگرام کے تحت امریکی طلبہ کی ایک بڑی تعداد سنگ ہوا یونیورسٹی بیجنگ سے ماسٹرز کی ڈگری لینے چین آئی تھی۔ اب آرمی، نیوی اور ایئر فورس اکیڈیمیز نے بتایا کہ آئندہ کیڈٹس ان پروگراموں میں شرکت نہیں کر سکیں گے کیونکہ امریکی وزارت دفاع کے ایک ڈائریکٹو کے مطابق اب چین کے ساتھ نئے پروگرامز کی تعداد محدود کر دی گئی ہے۔ شارزمن پروگرام نے یہ کہہ کر اس ڈائریکٹو کو منسوخ کرانے کی پوری کوشش کی تھی کہ ’’چین کے بارے میں جانکاری رکھنے والے ملٹری افسروں کی اپنی اہمیت ہے‘‘؛ تاہم وزارتِ دفاع نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔صدر ٹرمپ نے چین کے لیے فلبرائٹ پروگرام بھی معطل کر دیا تھا جسے بائیڈن حکومت نے بھی بحال نہیں کیا۔ مسٹر ڈینس سائمن کا کہنا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان تعلیمی تعاون میں سائبر سکیورٹی اور انٹلیکچوئل پراپرٹی کی چوری سے متعلق امریکی تشویش اپنی جگہ جائز ہے۔ ڈیوک یونیورسٹی کو چھوڑنے کے بعد مسٹر سائمن نے یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کو جوائن کر لیا ہے جو چینی طلبہ کو اپنے ہاں سٹڈی کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور ا س کی وجہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ لیول تھری کی ٹریول ایڈوائزری ہے جو یکطرفہ گرفتاری کے امکان پر متنبہ کرتی ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں