ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

غزہ پر حملے کے بعد کیا ہوگا؟ …(2)

تحریر: تھامس فریڈمین

اسرائیلی کی پھیلائی تباہی کے بعد غزہ ایک ایسا دیو بن کر سامنے آئے گا جو اپنے سینے کے زخموںکو خود ہی چاٹ رہا ہو گا، جس سے اسرائیل کو عسکری، معاشی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے سخت نقصان پہنچے گا اور یہ اس کے سرپرست امریکہ کی سپرپاور حیثیت کو بھی متاثر کرے گا۔ اسے ایک دیر پا نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اس وقت ایک ایسی مہم چلانے میں مصروف ہیں جس کا مقصد صرف اپنے شدت پسند دائیں بازو کے اتحادیوں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ اس وقت صرف وہی ایک لیڈر ہیں جو بائیڈن حکومت کو اس کے منہ پر یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کی طرف سے اس وقت اسرائیل کوجو کچھ کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے‘ وہ اس کا عشر عشیر بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے یعنی اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو ازسر نو مضبوط کرنے میں امریکہ کا ہاتھ بٹائے نیز یہ کہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی طویل مدتی سیاسی پیشرفت کا مظاہرہ کرے تاکہ ایک ایسے فلسطینی پارٹنر کے لیے بھی سیاسی گنجائش پیدا کی جا سکے جو اسرائیل او ر حماس سے آزادی کے بعدایک دن غزہ پر اپنی حکومت چلا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب آج بھی اس امر کے لیے تیار نظر آتا ہے کہ جیسے ہی غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہو تو امریکی، سعودی، فلسطینی اور اسرائیلی مذاکرت کا سلسلہ پھر سے شروع کیا جا سکے اور یہ بات کافی اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن یہ سعودی عرب کی طرف سے کوئی خیراتی نوعیت کا اقدام نہیں ہے۔ یہ اس کی ہارڈ کور حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس وقت سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش میں جو بھی طبقہ برسر اقتدار ہے (یہ تین وہی ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ ابراہم معاہدے پر دستخط کیے) نئی نسل اسرائیل فلسطینی تنازع کے حوالے سے بالکل ایک غیر جذباتی انداز میں سوچتی ہے۔ یہ تمام لیڈرز اب یہ سن سن کر تھک چکے ہیں کہ انہیں اپنی ترجیحات کو ابھی التوا میں رکھنا ہو گا اور ساری توجہ، وسائل اور انرجی مسئلہ فلسطین کی طرف مرکوز کرنا ہو گی۔ اگرچہ عین اسی لمحے وہ غزہ میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں کو دیکھ کر بھی بجا طور پر خوفزدہ نظر آ رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ فلسطینی اتھارٹی میں پائی جانے والی مالی کرپشن اور حکومتی امور کو چلانے میں نااہلی کے حوالے سے بھی ایک بھرپور ادراک رکھتے ہیں اور اس امر کو بخوبی سمجھتے ہیںکہ کس طرح اس خطے میں حماس سے ہمدردی رکھنے والے غزہ میں مرنے والے کم سن فلسطینی بچوں کی لاشوںکی تصاویر کو استعمال کر رہے ہیں تاکہ عرب عوام کے اندر اشتعال پیدا کیا جا سکے۔ مغربی ممالک کے سفارتکاروں اور سعودی عرب کے حکام نے میرے ساتھ ملاقاتوں میں اس امر کی بجا طور پر نشاندہی کی تھی کہ اس وقت عرب دنیا میں جو باہمی لڑائیاں جاری ہیں اس میں سوشل میڈیا پر فلسطینی مسئلے کو بھی زبردست انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ بات اس وقت بھی درست ثابت ہوئی جب سعودی عرب کے پرنس محمد بن سلمان نے ستمبر میں فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں پُرجوش انداز میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، بشرطیکہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ دو ریاستوںکے سیاسی حل کی طرف پیش قدمی کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب کی طرف سے ایسی رضامندی ہی سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کی فوری اور بنیادی وجہ بنی۔ 

جب سعودی عرب نے28 اکتوبر کو اپنا سالانہ انٹرٹینمنٹ اینڈ سپورٹس فیسٹیول منانے کا اعلان کیا‘ جو ریاض سیزن کے نام سے معروف ہے‘ تو فلسطین نواز سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے‘ جو زیادہ تر کویت اور مصر میں مقیم تھے‘ سعودی عرب کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا کہ جب ایک طرف غزہ جل رہا ہے تو دوسری جانب سعودی عرب جشن اور خوشیاں منا رہا ہے۔ سوشل میڈیاپر ایسی پوسٹس لگائی گئیں جن میں ایک طرف ریاض میں کلچرل پرفارمنس کے مظاہرے ہو رہے تھے اور اس کے برعکس دوسری جانب غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری جاری تھی۔ اس سے معاملے میںشدت پیدا ہو گئی۔ ڈیلی میل آسٹریلیا نے رپورٹ کیا کہ کویت میں 21 نومبر کو فٹ بال ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ میچ‘ جو فلسطینی اور آسٹریلوی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا‘ میں کھیل شروع ہونے کے سات منٹ بعد ہی فلسطینی مداحوں نے غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کرنا شروع کر دیا اور انہوں نے سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کی یاد منانے کے لیے فلسطینی جھنڈے اور فلسطینی ہیڈ سکارف ہوا میں لہرانا شروع کر دیے۔ یہاں ایک عہدیدار نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ کھیل شروع ہونے کے سات منٹ بعد شروع ہونے والااحتجاج نہ صرف حماس کی حمایت کا اعلان تھا بلکہ اس کا اشارہ سعودی عرب کی طرف بھی تھا۔ پرتگالی سپر سٹار کرسٹینو رونالڈو‘ جو آج کل النصر کلب سعودی عرب کی طرف سے کھیل رہے ہیں‘ وہ 7 نمبر کی شرٹ پہنتے ہیں اور یہ ساتویں منٹ پر شروع ہونے والے احتجاج کی طرف اشارہ ہے۔ النصر کلب کے فین رونالڈ کے ساتھ اس بات پر بڑی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

اور ابھی جب پیر کے روز میں فصلیہ مال سے گزر رہا تھا تو ایک درمیانی عمر کا دکاندار‘ جو مجھے پہچانتا ہے‘ مجھے ہیلو کہنے کے لیے اپنی دکان سے باہر نکل آیا۔ باتوں باتوں میں ہماری گفتگو کا رخ غزہ کی طر ف مڑ گیا تو وہ مجھے یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کرتا رہا کہ مجھے یہ جان لینا چاہئے کہ سعودی عوام کی ایک بڑی تعداد حماس کی سرگرمیوں کی حمایت نہیں کرتی کیونکہ اس نے اسلام کی تعلیمات کے بالکل برعکس سویلینز کو قتل کیا ہے اور بچوںکو اغواکیا۔ ایک اہم خبر یہ ہے کہ ایک سعودی عہدیدار نے مجھے بتایا تھا کہ چند مہینے قبل سعودی عرب نے ایک نجی کمپنی کے تعاون سے ایک پول کروایا تھا جس میں یہ پوچھا گیا تھا کہ اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات نارمل ہو جائیں تو ان کے کیا جذبات اور احساسات ہوں گے اگر یہ تعلقات اس شر ط پر قائم ہوں کہ اسرائیل ایک فلسطینی ریاست کے وجود کو بھی تسلیم کر لے۔ پول میں حصہ لینے والے ستر فیصد سے زائد لوگوں نے اس بات کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا تھا۔ ایک بری خبر بھی ہے۔ وہ یہ کہ اس عہدیدار نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ اب جو غزہ سے تصاویر آنا شروع ہوئی ہیں‘ حکومت کبھی اس بات کی جرأت نہیں کرے گی کہ وہ ایک مرتبہ پھر ایسا پول کروا سکے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں