ماحولیاتی تبدیلیاں اور زرعی پیداوار
اس وقت ہمارے دو سب سے بڑے آبی ذخائر، منگلا اور تربیلا میں پانی کی مقدار تشویشناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ واپڈا کے مطابق اس کمی کی وجہ جنوری، فروری اور رواں ماہ کے دوران خشک سالی ہے۔ ہماری بیشتر خوراک زراعت سے حاصل ہوتی ہے اور زراعت کا انحصار موسموں پر ہے۔ وقت پر سردی، وقت پر درجۂ حرارت میں اضافہ، وقت پر بارش اور وقت پر سورج کی تمازت میسرہو تو فصلیں بھرپور اور شاندار ہوتی ہیں‘ لیکن قدرت کے بنائے ہوئے نظام اور قائم کیے گئے توازن کے ساتھ انسانی بگاڑ اور بے اعتدالیوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں شدت اختیار کر چکی ہیں‘ جن کی وجہ سے بارشوں اور خشک موسموں کا دورانیہ بے ترتیب ہو چکا ہے۔ معمول کے مطابق جن موسموں میں بارش ہوتی تھی اب اکثر خشک سالی کا شکار رہتے ہیں جبکہ وہ مہینے جب بارش کی ضرورت نہیں ہوتی ‘ اب ان میں اکثر اور شدید برسات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان زراعت کا ہو رہا ہے کیونکہ ہزاروں سال کے موسمی پیٹرن کے مطابق فصلوں کی کاشت اور برداشت کی جو ترتیب قائم ہوئی تھی اسے غیر متوقع صورتحال کا سامنا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی سے نبرد آزما ہونے کیلئے 2015ء میں اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے ایک تحریک شروع ہوئی تھی جسے پیرس معاہدے کا نام دیا جاتا ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کے دور میںیہ تحریک ایک بحران سے دوچار رہی کیونکہ وہ اس معاہدے کے اغراض و مقاصد سے اختلاف رکھتے تھے‘ لیکن یہ تو عالمی سطح کے معاملات ہیں‘ اپنے ملک میں ہمارے سامنے عملِ پیہم کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ تو پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں شجر کاری سے کوئی نہیں روکتا لیکن نہ جتنی شجر کاری آسانی سے ممکن تھی ہم کر سکے اور نہ ہی ہماری تمام تر بے احتیاطیوں اور مجرمانہ زیادتیوں کے باوجو د جو جنگلات بچ گئے ہیں انہیں محفوظ کرنے کیلئے کچھ کیا گیا ہے۔ جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات ہر سال بڑھ رہے ہیں اور یہ بات عام ہے کہ اس کے پیچھے ٹمبر مافیا کا ہاتھ ہوتا ہے جو اپنی چوری چھپانے کیلئے یا مزید کٹائی کیلئے یہ مجرمانہ کام کرتا ہے۔ یقینا ٹمبر مافیا جنگلات کے محکمے کے بدعنوان عناصر کی حمایت کے بغیر یہ سب نہیں کر سکتا۔
موجودہ حکومت کی جانب سے ’’دس ارب ٹری سونامی‘‘ منصوبہ جاری ہے۔ اگر نئے لگائے جانے والے درختوں کی تعداد اس منصوبے کے مفروضہ اہداف سے نصف رہے تو بھی اسے ایک بڑی کامیابی سمجھنا چاہیے ‘ بہرحال نئے درخت لگانے کے ساتھ اہم ترین معاملہ یہ بھی ہے کہ درختوں کی نگہداشت پر خصوصی توجہ دی جائے تا کہ جو کھڑے ہوئے درخت ہیں ان کی کٹائی کا عمل رک سکے اور جو نئے لگائے جا رہے ہیں وہ پروان چڑھ سکیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی ماحولیاتی پالیسی کو عالمی سطح پر سراہا جا رہاہے‘لیکن ملکی سطح پر اسے تب سراہا جائے گا جب اس کے مثبت اثرات واضح طور پر عوام تک پہنچنے لگیں گے۔اربابِ بست و کشاد کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے۔