اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سانحہ مری انکوائری رپورٹ سے کیا سیکھا جا سکتا ہے

سانحہ مری کی پانچ رکنی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ انتظامیہ کی غفلت کو اس سانحے کا سبب قرار دیتی ہے۔ محکمہ موسمیات کی وارننگ کو نظر انداز کرنا‘ راستے تاخیر سے بند کرنا اور برف ہٹانے کی مشینری کو حالات کے مطابق درست مقامات پر بروقت نہ پہنچایا جانا ایسے حقائق ہیں جن کی ذمہ داری سے متعلقہ انتظامیہ بریّت اختیار نہیں کر سکتی۔ اب یہ رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کی جائے گی اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا؛ تاہم ماضی کی مثالوں سے اگر کچھ سمجھا جا سکتا ہے تو یہ کہ انتظامیہ کی غفلت سے رونما ہونے والے حادثات کی رپورٹوں‘ خواہ وہ کتنی ہی واضح اور شبہات سے پاک ہوں‘ سے سسٹم کی اصلاح کیلئے مدد لینے کی روایت ہمارے ہاں نہیں پائی جاتی۔ ایک حادثے کی وجوہ معلوم ہو جائیں تو عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ مستقبل میں ان سے بچاؤ کے اسباب یقینی بنائے جائیں‘ مگر ہمارے ہاں تاریخ کو دہرانے کی روایت رہی ہے۔ جب تک حادثے یا سانحے کی خبر گرم رہتی ہے‘ حکومت کی توجہ بھی انکوائریوں پر مرکوز رہتی ہے مگر بتدریج صورتحال معمول کے مطابق ہو جاتی ہے۔

ماضی کے کسی بڑے سانحے کو یاد کر لیں‘ جس کے اسباب جاننے کیلئے تحقیقات بھی ہوئی ہوں‘ مگر ان سے کوئی بہتری آئی ہو؟ اس سے تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے ہاں تحقیقات اور انکوائریوں کا مقصد سچ جاننے اور مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کے بجائے وقت گزارنا اور توجہ بٹانا ہوتا ہے۔ بہرحال یہ تحقیقاتی رپورٹ‘ جو ایسی انتظامی غفلت کی نشاندہی کر رہی ہے جس کے نتائج پاکستانی کے سیاحتی امیج کیلئے بھی غیرمعمولی منفی اثرات رکھتے ہیں‘ انتظامی اصلاح کی ضرورت کا احساس دلانے کا ایک اور محرک ثابت ہو سکتی ہے اور حکومت چاہے تو سسٹم کی بہتری کیلئے اس سے خصوصی مدد لی جا سکتی ہے۔ بادی النظر میں جن حقائق کی جانب اشارہ کیا گیا‘ یہ بروقت فیصلہ نہ لینے کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً یہی دیکھ لیں کہ محکمہ موسمیات کا برف باری کا الرٹ متعلقہ انتظامیہ کو بروقت جگانے میں ناکام رہا۔ اگر انتظامیہ کی جانب سے بروقت تیاری کرلی جاتی اور برف ہٹانے کیلئے جو بھی تھوڑا بہت بندوبست موجود تھا اسے لائن اپ کر دیا جاتا تو ممکن ہے حالات اس درجہ شدت اختیار نہ کرتے۔

اسی طرح ٹریفک کے بہاؤ کو نظرانداز کرنے کی غلطی سے ٹریفک کا سیلاب بڑھتا چلا گیا۔ اگرچہ یہ رپورٹ صرف اس ایک سانحے کو مدنظر رکھتی اور اسی کے اسباب کو بیان کرتی ہے مگر جس انتظامی غفلت کی اس میں نشاندہی کی گئی ہے وہ ہمارے ہر شہر کا سدا بہار مسئلہ ہے۔ بظاہر یہ مسائل افرادی قوت اور وسائل کی کمی کا نتیجہ نہیں‘ نہ ہی یہ مہارت کے بحران کی وجہ سے ہیں۔ ہمارے سرکاری اداروں میں‘ تقریباً ہر سطح پر ایسے لوگ موجود ہیں‘ جو کم از کم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی اوسط صلاحیت رکھتے ہیں‘ مگر جو بدنظمی ہے اس کی وجہ ترجیحات کا تفاوت اور احساسِ ذمہ داری کا فقدان ہے۔ جب تک سرکاری شعبوں میں جوابدہی اور ذمہ داری کا احساس معیاری حد تک پروان نہیں چڑھتا غفلت کی ایسی مثالیں دہرائی جاتی رہیں گی۔ اس مسئلے کو سیاسی بنیادوں پرنہیں خالص پیشہ ورانہ بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کے نزدیک افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کسی مسئلے کو سیاسی حد تک حل کر دیتی ہے اور لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں‘ حالانکہ ایسا نہیں‘ نہ لوگ مطمئن ہوتے ہیں اور نہ ہی اس طرح مسائل حل ہوتے ہیں۔ یہ محض حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے اور اپنے آپ میں ذمہ داریوں سے فرار کا ایک راستہ ہے۔

افسران کے تبادلے جس تیزی سے موجودہ حکومت نے کئے اس کی مثال تاریخِ پاکستان میں شاید ہی مل سکے مگر اس سے ایڈمنسٹریشن میں کیا بہتری آئی؟ کیا سرکاری نظام زیادہ شفاف‘ مؤثر اور سیدھا ہوگیا ہے؟ کیا سرکاری عہدیدار زیادہ ذمہ دار ی سے کام کرنے لگے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب نفی میں ہیں اور ماضی سے تقابل کیا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ حالات پہلے سے زیادہ خراب ہیں۔ ثابت ہواکہ افسران کے تھوک کے حساب سے تبادلے سرکاری نظام کے مسائل کا حل نہیں۔ قومیں حادثات‘ سانحات اور بحرانوں سے سیکھتی ہیں اور مری کا سانحہ کچھ کم نہ تھا۔ جو جانی نقصان ہوا اور شہریوں کو جو تکلیف اٹھانا پڑی بہت المناک ہے مگر اس واقعے نے پاکستان کے عالمی تشخص کو بھی متاثر کیا۔ دنیا پچھلے کچھ عرصے سے ایسے پاکستان کو دیکھ رہی تھی جو اپنے ہاں سیاحت کے فروغ کیلئے کوشاںہے۔ اگر کووڈ کی عالمگیر وبا نہ آتی تو ممکن ہے غیرملکی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوجاتا‘ مگر اب مری کے سانحے نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کیا ہوگا کیونکہ ٹورسٹ ڈیسٹی نیشنز کے انتظامی‘ تجارتی اور سہولیاتی معیار‘ اصول اور قواعد ایسے نہیں ہوتے۔

قدرتی آفات کہیں بھی انسانی کوششوں کو ناکام بنا سکتی ہیں مگر یہاں تو معیاری حد تک کوشش نظر ہی نہیں آتی۔ اگر متعلقہ انتظامیہ نے برف باری کے امکان کے پیش نظر مشینری اور افرادی قوت کا بروقت انتظام کر لیا ہوتا اور گنجائش سے زیادہ گاڑیوں کے داخلے کو بروقت روکا جاتا تو کیا اس حادثے سے بچنا ممکن نہ تھا؟ یہ انکوائری رپورٹ محض کاغذوں کا پلندہ ہے‘ اگر اس سے کسی نے کوئی سبق حاصل نہ کیا اور اصلاح کے اقدامات میں اس سے کوئی مدد نہ لی جا سکی‘ اور اگر یہ ہمارے لیے سبق آموز اور نظام کار کی بہتری میں کسی حد تک ہی سہی‘ مددگار ثابت ہو تو سانحہ مری کی انکوائری رپورٹ کی بہت اہمیت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement