اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آئین کی بالادستی کا سوال!

رواں سال آئینِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کا سال ہے اور اس تاریخی پیش رفت کی مناسبت سے وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قوم کو مبارک باد دی ۔آئینِ پاکستان کو وجود میں آئے پانچ دہائیاں گزر گئیں مگر آئین کی بالادستی کا سوال بدستور ہے۔ آئین میں جن بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے‘ ان کی تفصیل بابِ اول میں موجود ہے جن میں فرد کی سلامتی ، گرفتاری اور نظر بندی سے تحفظ ‘ شرفِ انسانی کی حرمت‘ نقل و حرکت کی آزادی‘ اجتماع کی آزادی‘ تقریر کی آزادی‘ مذہب کی پیروی اور مذہبی اداروں کے انتظام کی آزادی‘ زبان ‘ رسم الخط اور ثقافت کا تحفظ‘ شہریوں میں مساوات‘ ملازمتوں میں امتیاز کے خلاف تحفظ ‘ پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کیلئے مفت لازمی تعلیم کا وعدہ‘ شہریوں کی قانون کے سامنے برابری کے تصور کی یقین دہانی اور قانون کا مساوی تحفظ‘ صنفی امتیاز کا خاتمہ اورعوامی مقامات تک بلا امتیاز رسائی۔ یہ ان بنیادی حقوق کا مختصر جائزہ ہے جو آئین پاکستان میں گارنٹی کئے گئے ہیں۔ آئین کی گولڈن جوبلی کے برس کی مبارکبادیں اپنی جگہ مگر کیا یہ دیکھنا ضروری نہیں کہ یہ بنیادی حقوق جن کا آئین میں وعدہ کیا گیا ہے‘ ان کی فراہمی کی کیا صورت ہے؟ کیا پاکستان کے شہریوں کو برابری کا وہ حق حاصل ہے جس کا انہیں یقین دلایا گیا ہے‘ کیا نقل و حرکت ‘ تحریر و تقریر ‘ اجتماع‘ تعلیم ‘ صحت ‘ روزگار کے مواقع اُسی طرح میسر ہیں ؟ بدقسمتی سے ان میں بہت سے سوالوں کا جواب نفی میں ہے؛چنانچہ آئین کی گولڈن جوبلی کے سال میں ہمیں اس ذمہ داری میں ناکامی کا احساس بدرجہ اتم ہونا چاہیے۔ اس دوران جب حکومت ایک طرف آئین کی پچاسویں سالگرہ منا رہی ہے دوسری جانب دو صوبوں میں عام انتخابات کو آئین کی مقررکردہ مدت میں کروانے سے راہِ فرار آئینی نوعیت کے ایک مسئلے کے طور پر اعلیٰ عدلیہ کے ایوانوں میں زیر سماعت ہے۔ آئین کی سالگرہ منانے سے آئین کی بالا دستی یقینی بنانا کہیں زیادہ اہم ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مقتدر قوتیں اپنی مرضی اور مفادات کو آئین کے تابع کرلیں نہ کہ آئین کو ربڑ سٹیمپ کی طرح استعمال کریں۔ آئین کی پچاسویں سالگرہ اس طویل عرصے کے دوران آئین تقاضوں پر عمل درآمد کی پڑتال کا بھی بہترین وقت ہے‘ مگر اس کیلئے جو متوازن‘ معتدل اور معقول سیاسی ماحول اور سیاسی جماعتوں کا باہمی تعلق درکار ہے‘ ہمارے ہاں وہ نایاب ہو چکاہے اس لیے ہم فقط آئین سازی کی سالگرہ پر مبارک دے سکتے ہیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران بھی قوم کو آئین کی مبارک باد ہی سے خوش کیا۔ آئینی تقاضوں کی بجا آوری کی کیا صورت رہی اور آگے ہماری سمت اور اہداف کیا ہوں گے‘ وزیر اعظم نے ان نکات پر روشنی ڈالنا ضروری نہیں سمجھا۔ ان کی توجہ مخالف سیاسی جماعت اور اس کے سربراہ پر مرکوز تھی ‘حالانکہ آئین کی پچاسویں سالگرہ اور پارلیمان کا مشترکہ اجلاس وزیر اعظم کیلئے بجا طور پر موقع پیدا کرتا تھا کہ وہ جامع انداز سے قومی صورتحال کا احاطہ کرتے اور معیشت ‘ فرد کی ترقی اور بنیادی حقوق یقینی بنانے جیسے تشنہ تکمیل اہداف کے حصول کی جانب توجہ دلاتے۔ سیاسی حالات کی تلخی وزیر اعظم کو ان موضوعات پر اپنی قائدانہ حکمت سامنے لانے سے نہیں روک سکتی تھی۔ بجا کہ یہ سیاسی بحران بہت پیچیدہ صورت اختیار کر چکا ہے مگر اس پیچیدگی اور بحرانی کیفیت سے نکلنے کے راستے پیدا کرنا ہی قائدانہ صلاحیت کا شیوہ ہے۔ اگرزبانیں شعلے اگلتی رہیں گی ‘ الزام تراشی جاری رکھی جائے گی تو یہ بحران کم نہیں ہو گا‘شدت اختیار کرے گا۔ یہ حالات کسی کے فائدے میں نہیں‘ مگر حکومت چونکہ ذمہ دار ہے اس لیے عوامی سوالوں کا رخ اسی کی جانب ہے اور بڑھتی مشکلات اور بے یقینی کے حالات میں عوام کا شکوہ اسی سے ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement