اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

شفاف انتخابات، جمہوری اور قومی ذمہ داری

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کو مخاطب کرتے ہوئے ملک میں شفاف انتخابات یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے ان خیالات کا اظہار آصف علی زرداری کی جانب سے شفاف انتخابات اور الیکشن کمیشن پر اظہارِ اعتماد کے اگلے روز کیا۔بہرکیف اس میں دورائے نہیں کہ ملکی مسائل کا حل پائیدار جمہوریت میں ہے اور انتخابی شفافیت مستحکم جمہوریت کی بنیاد ہے۔ آصف علی زرداری کا اعتماد اپنی جگہ مگر پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین کے تحفظات کو بھی یکسر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنما کی جانب سے انتخابات میں شفافیت یقینی بنانے پر زور بے جا نہیں۔ ملک کی انتخابی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو شفافیت یقینی بنانے کا مطالبہ برمحل معلوم ہوتا ہے۔ تاہم سیاسی جماعتیں ضرور جانتی ہوں گی کہ انتخابی شفافیت کیلئے صرف سرکاری اداروں سے سوال کرنا کافی نہیں۔ سیاسی جماعتیں خود اس عمل کی بہت اہم حصہ دار ہیں؛ چنانچہ آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات یقینی بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں کا اپنا عمل دخل بہت اہم ہے۔ اگر صفِ اول کی سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کو قانونی‘ اخلاقی اور جمہوری دائرۂ کار سے باہر نہ دھکیلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ انتخابی عمل سب کیلئے یکساں تسلی بخش اور ملک کیلئے باعثِ خیر نہ ہو۔ مسائل اُسی صورت پیدا ہوتے ہیں جب سیاسی جماعتیں خود انتخابی بد انتظامی کی جویا اور شراکت دار بنتی ہیں۔ اگر سیاسی تصورات میں تبدیلی نہیںآتی تو انتخابی عمل میں بھی کسی معرکہ آرا تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو انتخابی شفافیت کا سوال خود سے بھی کرنا چاہیے۔ کیا سیاسی جماعتوں میں اس حوالے سے کوئی اتفاقِ رائے سامنے آیا ہے یا سیاسی حلقوں میں اس سلسلے میں کوئی غور و فکر؟ اگر اسکا جواب نفی میں ہے تو صرف انتخابات منعقد کرانے والے اداروں کی کوشش سے ہمارے جیسے معاشروں میں انتخابات جیسے عمل کی مکمل شفافیت ایک سوالیہ نشان ہی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو جتنا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے اسی قدر ذمہ دار وہ سیاسی جماعتیں بھی ہیں جنہوں نے جمہوریت کے حقیقی مقاصد کو پسِ پشت ڈال کر صرف جیت کو سیاست کا ہدف بنالیا۔ آٹھ فروری کے عام انتخابات نے سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر سوچنے اور عمل کرنے کا موقع دیا ہے۔ ایک بار پھر سیاسی جماعتوں کے بس میں ہے کہ وہ ملک کو حقیقی جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھائیں۔ مگر اس کیلئے انہیں جیت کی ہوس میں مبتلا ہونے اور ہر قیمت پر اسمبلی ایوانوں پر تصرف حاصل کرنے کی خواہش کے بجائے ملکی سیاست کو منشور کی سیاست سے تبدیل کرنا ہو گا۔ ابھی تک کسی جماعت کی جانب سے انتخابی منشور کا نہ آنا حیران کن ہے جبکہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوئے قریب بیس روز گزر چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین جلسے کررہے ہیں مگر انتخابی منشور کے ذریعے عوام کو یہ نہیں بتایا جارہا کہ کون سی پارٹی اقتدار ملنے کی صورت میں ملک و قوم کی بہتری کیلئے کیا کرنا چاہتی ہے اور کس طرح؟ اگرچہ‘ ماضی کے عام انتخابات کو دیکھا جائے تو‘ انتخابی منشور محض تکلف معلوم ہوتے ہیں جبکہ اقتدار ملنے کے بعد کی کارکردگی کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ جب سیاسی جماعتیں خود اپنی اس اہم قومی ذمہ داری کو تسلیم کرنے اور اس کی تعمیل پر آمادہ نہیں تو انتخابی شفافیت کا شوروغوغا بھی بے اثر ثابت ہوگا۔ درحقیقت سیاسی جماعتوں کو یہ سوال کسی اور سے نہیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے کہ ملکی قوانین کے مطابق آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کیلئے وہ کس حد تک سنجیدہ اور مخلص ہیں۔یہ درست ہے کہ انتخابات کا فائدہ تبھی ہو گاجب ان پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے‘ مگر انتخابات سب کیلئے تسلی بخش اسی صورت ہو سکتے ہیں جب انتخابات کے سبھی سٹیک ہولڈرز اس ضمن میں جمہوری اصولوں اور قومی ذمہ داری کی پاسداری کریں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں