اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

قومی اسمبلی اجلاس میں لیت و لعل

قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کیلئے گزشتہ ہفتے وزارتِ پارلیمانی امور کی جانب سے ایوانِ صدر کو بھیجی گئی سمری پر‘ اطلاعات کے مطابق‘ صدرِ مملکت نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ صدرِ مملکت کا موقف ہے کہ بعض جماعتوں کی مخصوص نشستوں کا فیصلہ ہنوز زیر غور ہے؛ چنانچہ ان حالات میں اسمبلی کو مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا‘ اس لیے نامکمل اسمبلی کا اجلاس بھی طلب نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابات کے بعد ایک مخصوص مدت کے اندر اسمبلی اجلاس بلایا جانا آئینی تقاضا ہے جس کی تصریح آرٹیکل 91 کی دفعہ دو میں موجود ہے ‘ جس کی رُو سے انتخابات کے بعد 21 روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا۔ کیا یہ اجلاس صدرِ مملکت کی منظوری پر منحصر ہے؟ اس حوالے سے دو رائے پائی جاتی ہیں‘ ایک رائے جو بادی النظر میں معقول معلوم ہوتی ہے‘ یہ ہے کہ 21 روز کی مدت انتہائی حد ہے جس سے تجاوز نہیں کیا جا سکتا اور صدرِ مملکت اگر اس دوران اسمبلی اجلاس طلب نہ کریں تو اس مدت کے اختتام پر قومی اسمبلی اجلاس منعقد کر سکتی ہے۔ آئینی معاملات میں پچھلے کچھ عرصہ کے دوران جس طرح کے غیر معمولی سوالات پیش آئے ہیں‘ یہ معاملہ بھی کچھ ویسا ہی ہے۔ آئین میں امور کی ایک صورت کا ذکر تو موجود ہے مگر اس کے علاوہ صورتوں میں کیا کرنا ہے‘ اس حوالے سے آئین میں رہنمائی نہیں ملتی۔ ان سوالات اور مسائل کی نت نئی صورتوں کو ہمارے جمہوری ارتقا اور جدت پسندی پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ انتخابات سے قبل یہ سوال درپیش تھا کہ آئین میں عام انتخابات کیلئے اسمبلی تحلیل ہونے کے نوے روز بعد کا ذکر تو موجود ہے مگر اس مدت سے تجاوز کیا جائے تو پھر آئین کیا کہتا ہے؟ سیاسی رہنماؤں نے اس معاملے میں بھی اپنی اپنی پسند کے نتائج اخذ کیے‘ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے تو یہ نکتہ بھی پیش کر دیا کہ آئین کا آرٹیکل 254 کہتا ہے کہ کوئی کام تاخیر سے غیر آئینی نہیں ہو جاتا۔ بہرکیف‘ انتخابات کی تاریخ کا معاملہ سپریم کورٹ کی مداخلت ہی سے طے ہوا۔ اب اسمبلی اجلاس میں صدرِ مملکت کی منظوری کا سوال بھی بظاہر اسی نوعیت کا ہے کہ شاید اعلیٰ عدالتوں ہی سے رہنمائی لینا پڑے۔ مگر اس سے پہلے یہ سوچنا ہو گا کہ ہمارے ہاں حالیہ کچھ عرصے کے دوران ایسے غیر معمولی حالات اس تواتر سے کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟ موجودہ صورت میں ایک جماعت کی مخصوص نشستوں کے تعین کا معاملہ اس کا جواز بنا ہے‘ جس پر الیکشن کمیشن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سبھی سیاسی جماعتوں کی مخصوص نشستوں کا معاملہ ایک ساتھ نمٹا دیا جائے اور اسمبلی پوزیشن اور قاعدے کے مطابق جس جماعت کی جو مخصوص نشستیں بنتی ہیں اسے دے دی جائیں۔ ابہام اس وقت پیدا ہوتا ہے جب معاملات کو لٹکایا جاتا ہے‘ اور یہ رویہ ملک میں سیاسی توازن اور جمہوری استحکام کیلئے بھی بڑے مسائل کھڑے کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک مخصوص جماعت کی مخصوص نشستوں کے فیصلے میں پس و پیش نہ ہوتا تو ایوانِ صدر کو اسے جواز قرار دے کر اسمبلی اجلاس طلب کرنے میں لیت و لعل کا موقع بھی نہ ملتا؛ تاہم پی ڈی ایم حکومت کے وزیراعظم سے حلف لینے میں صدرِ مملکت نے جو گریز پائی اختیار کی وہ بھی عوامی حافظے میں ہے اور حالیہ اسمبلی اجلاس بلانے سے انکار کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ مگر یہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ ہر غیر معمولی اقدام ایک اور غیر معمولی اقدام کا راستہ ہموار کرتا ہے اور واقعات کی ہر امکانی صورت کا احاطہ آئین میں ممکن نہیں۔ آئین کے علاوہ ہمیں جمہوری روایات کو بھی کچھ اہمیت دینا ہو گی۔ جمہوری روایات کو نظر انداز کر کے جمہوری استحکام کیلئے مثبت ماحول پیدا نہیںکیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے صدرِ مملکت کی جانب سے اسمبلی اجلاس نہ بلائے جانے کا کوئی متبادل قانونی راستہ ڈھونڈ نکالا جائے مگر روایات کو ٹھکرانے کی روش جمہوری اعتبار کو جو ٹھیس پہنچا رہی ہے اس کا ازالہ کیونکر ہو گا؟

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں