اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ضمنی انتخابات

ملک میں قومی اسمبلی کے پانچ اور صوبائی کے16 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی کے دونوں جبکہ صوبائی اسمبلی کے بارہ حلقوں میں سے اکثر پر برتری حاصل ہے‘ سندھ میں صوبائی اور قومی دونوں سطح پر پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری ہے‘ خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر صوبائی حکمران اتحاد آگے ہے‘ جبکہ باجوڑ کے قومی اسمبلی کے حلقے میں آزاد امیدوار نے سنی اتحاد کونسل کو پچھاڑ دیا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) ضمنی انتخابات میں آگے دکھائی دیتی ہے جسے کل اکیس حلقوں میں سے بارہ میں برتری حاصل ہے اور چار میں سنی اتحاد کونسل کو۔ ضمنی انتخابات کی جو روایتی خصوصیات ہیں وہ بھی ان انتخابات میں حسبِ روایت نظر آئی ہیں‘ جیسا کہ ووٹرز کا کم جوش و خروش اور ٹرن آؤٹ کی کم شرح۔اور یہ ایک ایسا عنصر ہے جو انتخابی نتائج سے متعلق سیاسی جماعتوں کی توقعات پربھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔ ان ضمنی انتخابات نے آٹھ فروری کے عام انتخابات کی بہت سی یادیں بھی تازہ کی ہیں‘ یوں انتخابات کی شفافیت پر بھی سوال اُٹھ رہے ہیں‘حکومتی انتظامات پر اعتراضات بھی کیے جا رہے ہیں اور لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت بھی سامنے آئی ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں انتخابی شفافیت کا فیصلہ نتائج کے تناظر میں کرتی ہیں اور عام طور پر جیت ہار سے ہی انتخابات کے شفاف ہونے یا نہ ہونے کا مؤقف اختیار کیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں بہت کم ایسے ہیں جو انتخابی نتائج کو من و عن خوشدلی سے قبول کرتے ہوں۔ تاہم یہ سیاسی رویہ انتخابات کو ’’بنانے‘‘ اور ’’بگاڑنے‘‘ کی حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتا۔ سیاسی انجینئرنگ ہمارے ہاں کی ایک بدیہی حقیقت ہے اور وقت کے ساتھ اس میںبہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔ انتخابات پر غیر شفافیت کے سائے اُسی طرح برقرار ہیں جیسے دو‘ تین دہائی پہلے تھے‘ بلکہ وقت کے ساتھ انتخابی انتظامات اور نتائج سے چھیڑ چھاڑ کی شکایات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ دس برس کے حالات کا جائزہ ہی کافی ہو گا۔ اس صورتحال نے انتخابی معاملات کو سیاسی بے یقینی کا عمل انگیز بنا دیا ہے‘ یوں عام انتخابات کے بعد بھی ملک کے سیاسی طوفان تھمنے کا نام نہیں لیتے‘ بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ انتخابات سیاسی انتشار کو بڑھانے کا سبب بنے ہیں۔ یہ صورتحال الیکشن کمیشن آف پاکستان کی فعالیت پر بھی سوال کھڑے کر تی ہے۔ الیکشن کمیشن خود کو آزادانہ‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ قرار دیتا ہے‘ مگر پچھلے کچھ برسوں کے انتخابات کو بطور مثال لیا جائے تو ان خصوصیات کا زمینی حقائق سے تقابلی جائزہ مایوسی کا سبب بنتا ہے کیونکہ یہ انتخابات مذکورہ صفات سے محروم رہے۔ملک میں سیاسی اصلاحات سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری تھی مگر اس ذمہ داری کی بجاآوری سے ان جماعتوں نے بھی چشم پوشی سے کام لیا ہے اور اصلاحات کے بجائے الزام تراشی پر اکتفا کیا ہے۔ ہر جماعت کسی نہ کسی طرح انتخابی نظام کی شاکی ہے مگر اصلاحِ احوال کیلئے کوئی بھی تیار نہیں۔ اس دوران انتخابی اصلاحات کی تجاویز بذاتِ خوداختلافات کا ذریعہ بنی ہیں اور ملکی سیاست کے اس روپ نے ملک میں جمہوریت کے استحکام کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری آبادی میں بتدریج ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے حامی نہیں۔ یہ سیاسی مایوسی انتخابی ٹرن آؤٹ میں کمی کی بڑی وجہ بھی ہے مگر اس کے اصل اثرات سماج میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور بے چینی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ سیاسی بحران جمہوریت پر اعتبار میں کمی کا سبب بن رہا ہے اور یہ صورتحال سماج میں پولرائزیشن کا پیش خیمہ ہے۔ملک میںجمہوری استحکام اور سماجی ہم آہنگی کیلئے ملک میں آزادانہ‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ناگزیر ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement