اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

نئے آئی ایم ایف پروگرام سے توقعات

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے امید ظاہر کی ہے کہ نئے قرض کے حصول کیلئے رواں سال جون کے آخر میں آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ طے پا جائے گا‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کیساتھ طویل مدتی پروگرام ضروری ہے ۔ وزیر خزانہ نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن کا دورہ کیا جہاں انہوں نے وفد کے ہمراہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آئی ایم ایف سے قرض کا نیا پروگرام کتنی مالیت کا ہو گا اور اس کا دورانیہ کیا ہوگا؛ تاہم اعلیٰ حکام یہ عندیہ ضرور دے چکے ہیں کہ آئی ایم ایف سے نئے قرض کے حصول پر بات چیت ہو رہی ہے جس پر اگلے ماہ پیشرفت کا امکان ہے۔ موجودہ معاشی بحران کا عبوری تجزیہ کیا جائے تو یہ درست ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام سے معاشی دیوالیہ پن کا خطرہ ٹلا ہے اور زرِمبادلہ کے ذخائر‘ جو گزشتہ سال فروری کے اوائل میں تین ارب ڈالر کی حد سے بھی نیچے گر گئے تھے‘ اور ضروری درآمدات کو بھی روک دیا گیا تھا‘ اب مستحکم ہو رہے ہیں اور اندازہ ہے کہ جون تک ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر 10ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ جائیں گے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر میں بہتری سے کریڈٹ ریٹنگ بھی بہتر ہو گی اور نئے قرضوں کے حصول میں بھی زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اگر دیگر معاشی اشاریوں پر نظر ڈالیں تو پاکستان سٹاک مارکیٹ اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے‘ زراعت کا شعبہ پانچ فیصد کی شرح سے نمو پذیر ہے‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو رہا ہے اور مارچ کے مہینے میں کرنٹ اکائونٹ 619 ملین ڈالر سرپلس رہا۔ یہ ملکی تاریخ میں تیسرا موقع ہے کہ تجارتی خسارے کے بجائے اکائونٹ سرپلس رہا۔ قبل ازیں اگست 2012ء اور فروری 2015ء میں کرنٹ اکائونٹ سرپلس رہا تھا۔ مالی سال 2024ء میں جی ڈی پی میں اضافے کی بھی توقع ہے جبکہ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے بھی اقدامات کرتی نظر آ رہی ہے۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کی طرف بھی مثبت پیشرفت جاری ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ گزشتہ سال کی نسبت اس وقت معاشی طور پر ہم بہتر پوزیشن میں ہیں۔ معیشت کے اس منظر نامے کو قابلِ اطمینان قرار دیا جاسکتا ہے تاہم اس کی بنیادیں مستحکم نہیں ۔ ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کمزور ستونوں پر ایستادہ ہوتی ہے اور سیاسی استحکام‘ سماجی حالات‘ عالمی صورتحال‘ امنِ عامہ اور جدید ٹیکنالوجی سمیت متعدد عوامل اس پر ہمہ وقت اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ ماضی قریب کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر‘ جو جون 2021ء میں لگ بھگ 17ارب ڈالر کی سطح پر تھے‘ وہ محض ڈیڑھ سال کے عرصے میں تین ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے اور اس دوران سیاسی عدم استحکام اور سماجی بے چینی نے عمل انگیز کا کام کیا۔ معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے میں معاشی اصلاحات‘ ٹیکس نظام میں بہتری‘ کاروبار دوست ماحول‘ بیرونی سرمایہ کاری میں سہولت اور سیاسی استحکام جیسے اقدامات سے کسی کو انکار نہیں مگر یہ اقدامات طویل منصوبہ بندی اور مصمم عزم ہی سے ممکن ہیں۔ عارضی اقدامات سے وقتی نتیجہ ہی برآمد ہو سکتا ہے‘ استحکام میسر نہیں آ سکتا۔ 1958ء سے اب تک پاکستان آئی ایم ایف کے 23 پروگرامز کا حصہ بن چکا ہے۔ ہر پروگرام کیساتھ معاشی اصلاح کے ایک خاکے پر اتفاق کیا جاتا ہے مگر ہر بار مشکل وقت گزر جانے کے بعد پرانی غلطیوں کو دہرایا جاتا ہے۔معاشی ماہرین کی رائے میں اس وقت ایک طویل مدتی آئی ایم ایف پروگرام ملکی معیشت کی ضرورت ہے مگر یہ اسی وقت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے جب معاشی استحکام کے دیگر لوازمات پر بھی اتنی ہی توجہ دی جائے‘ بصورت دیگر آئی ایم ایف کے 24 ویں قرض پروگرام کا بھی وہی نتیجہ نکلے گا جو دیگر 23پروگرامز سے برآمد ہوا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement