اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

شرح سود برقرار‘ اور اس کے اثرات

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود ایک بار پھر 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سٹیٹ بینک کے زری پالیسی بیان کے مطابق یہ فیصلہ مہنگائی کی شرح میں کمی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ پالیسی ریٹ کو مسلسل ساتویں بار 22 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے ۔ اگرچہ پالیسی بیان میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ مہنگائی کی شرح اب بھی بلند ہے اور حالیہ جغرافیائی سیاسی واقعات نے بھی بے یقینی کی صورتحال میں اضافہ کیا ہے جبکہ بجٹ سے متعلق آئندہ اقدامات بھی مہنگائی کی صورتحال پر اثر انداز ہو سکتے ہیں‘تاہم امید ظاہر کی گئی ہے کہ موجودہ مانیٹری پالیسی کا تسلسل ستمبر 2025ء تک مہنگائی کی شرح کو 5 سے 7 فیصد تک لانے میں معاون ثابت ہو گا‘جو اس سال فروری میں 23 فیصد تھی‘البتہ مارچ میں معمولی فرق کے ساتھ 20.7 فیصد پر آ گئی۔ دوسرا بڑا معاشی چیلنج قرضوں کی بلند سطح اور سودی ادائیگیاں ہیں۔ رواں مالی سال جولائی تا جنوری‘ مجموعی خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 2.6 فیصد کے مساوی ہو گیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 2.3 فیصد تھا۔ اس حوالے سے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور سرکاری شعبے کے اداروں کے خسارے کو کم کرنے کی ضرورت محتاجِ بیان نہیں‘ نیز ملکی پیداواری صلاحیت میں اضافہ بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے‘ مگر صنعتوں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو صنعتی شعبے میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں رواں مالی سال جولائی تا فروری‘ منفی گروتھ رہی۔ گزشتہ سال کے اس دورانیے میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں چار فیصد کمی واقع ہوئی ‘ البتہ اس ایک سال میں یہ فرق پڑا ہے کہ منفی گروتھ 0.5 فیصدرہ گئی ہے۔ خدمات کے شعبے میںبھی نمو ہدف سے کم رہی۔ اگرچہ اسے طلب کی کمی سے جوڑا جا رہا ہے مگر دیگر عوامل کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ زری پالیسی بیان سے یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ زراعت کا شعبہ پاکستان کی معیشت کے لیے کتنا اہم ہے ۔ بیان کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی سرگرمیاں معتدل رفتار سے بحال ہو رہی ہیں جس کا اہم سبب شعبہ زراعت میں مضبوط بحالی ہے۔ مالی سال 24ء کے پہلے نصف کے دوران زراعت کی شرح نمو6.8 فیصد رہی۔ اس کی وجہ چاول‘ مکئی ‘ کپاس اور تازہ ترین اندازوں کے مطابق گندم کی پیداوار میں نمایاں اضافہ تھا۔ مگر یہ باعثِ استعجاب ہے کہ ایک ایسا شعبہ جو ملکی معیشت کی ترقی میں اس قدر معاون ثابت ہو رہا ہے حکومتی سطح پر اس شعبے سے کس قدر بے توجہی برتی جارہی ہے۔ گندم کی خریداری کے دوران جو حالات سامنے آ رہے ہیں یہ اس سلوک کے آئینہ دار ہیں۔حکومت یہ کہہ سکتی ہے اور کہہ رہی ہے کہ یہ صورتحال ایک بد انتظامی کا نتیجہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ گندم درآمد کر لی گئی‘ مگر کیا یہی کہنا کافی ہو گا؟ کیا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ایک عذر پیش کرنے سے پوری ہو جاتی ہے ؟ اس صورتحال کے جو نتائج اور اثرات زراعت پر مرتب ہوں گے ان کا ازالہ کرنے کیلئے حکومت کیا کررہی ہے؟ اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ زراعت ملکی معیشت کیلئے کلیدی اہمیت رکھتی ہے‘ لہٰذا اس شعبے کو اس قدر اہمیت اور توجہ ضرور ملنی چاہیے کہ اس شعبے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اس کیلئے حکومت کو دور اندیشی سے سوچنا اور کام کرنا چاہیے۔یہی وہ شعبہ ہے جس کے معاشی اثرات فوری سامنے آتے ہیں۔ مگر بلند شرح سود نے جہاں دیگر صنعتوں کیلئے مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں وہاں زراعت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ مہنگے قرضوں کی سکت کاشتکار میں نہیں جبکہ زرعی اجناس کی مارکیٹ غیر مستحکم ہے۔ اس صورتحال میں حکومتی مداخلت نہ کی گئی اور زراعت کی ترقی کیلئے ترجیحی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ خدشہ خارج از امکان نہیں کہ زرعی شعبے کے استحکام کا جو بلبلہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران پیدا ہوا وہ باقی نہ رہے۔ یہ ملکہ معیشت کے لیے اچھا نہ ہو گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement