اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

’’دبئی اَن لاکڈ ‘ ‘

متحدہ عرب امارات کے تجارتی و سیاحتی مرکز دبئی میں غیر ملکیوں کی تقریباً 400ارب ڈالر مالیت کی جن جائیدادوں کا ڈیٹا لیک ہوا ہے اس میں پاکستانیوں کی بھی 11ارب ڈالر کی 23ہزار جائیدادیں شامل ہیں۔اس طرح کی دیگر لیکس کی طرح دبئی پراپرٹی لیکس بھی تہلکہ خیز ثابت ہوئی کیونکہ اس میں کئی بڑے نام شامل ہیں ‘ تاہم پاکستان کیلئے یہ معاملہ ایک اور حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان جیسے ملک کیلئے‘ جو معاشی عدم استحکام کا شکار ہے‘ 11ارب ڈالر غیر معمولی رقم ہے‘ اور اگر اتنی بڑی مالیت کی پاکستانی پراپرٹیز بیرونِ ملک ہیں تو یہ دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ ان سودوں کیلئے رقوم کی ترسیل قانونی طریقہ کار کے مطابق ہوئی اورمذکورہ پراپرٹیز کا ٹیکس کھاتوںمیں اندراج کروایا گیا ہے؟ پاکستانی شہریوں کیلئے بیرون ملک جائیداد رکھنا جرم نہیں ‘ بشرطیکہ یہ معاملہ قانونی تقاضوں کے مطابق انجام دیا گیا ہو۔اب جبکہ دبئی لیکس میں پاکستانی شہریوں کے نام سامنے آ چکے ہیں تو ٹیکس اتھارٹیز کو چاہیے کہ اس حوالے سے ضروری جانچ پڑتال کریں۔اس معاملے کو اس زاویے سے پرکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ پاکستانی شہریوں نے اتنی بڑی رقوم بیرونِ ملک املاک کی خریداری پر خرچ کر دیں؟ وہ یہ سب پاکستان میں کیوں نہیں کررہے؟اگر وہی حالات پاکستان میں پیدا کیے جاسکیں جنہوں نے پاکستانی شہریوں کیلئے بیرونِ ملک سرمایہ کاری کو پُر کشش بنایاتو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان بھی سرمایہ کاری کیلئے ایک اہم مقام ثابت نہ ہو۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں