اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

عید الاضحی اور فلسفۂ قربانی

پاکستان سمیت مشرقی ایشیائی ممالک کے مسلمان آج عید الاضحی مذہبی عقیدت و احترام اور روایتی جوش وجذبہ کے ساتھ منا رہے ہیں۔ یہ دن خلیل اللہ سیدنا ابرہیم علیہ السلام کی سنت میں اس عزم کی تجدید کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ آج مسلمان جانور قربان کر کے سنتِ ابراہیمی کی پیروی کر رہے ہیں مگر وقت پڑنے پر وہ اللہ کی راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ اسلامی کیلنڈر کا حُسن یہ ہے کہ ہر اہم دن کے پیچھے ایک پوری تاریخ اور اہم سبق موجود ہوتا ہے؛ وہ غزوۂ بدر کا دن ہو‘ فتح مکہ‘ واقعہ کربلا یا یوم النحر‘ کہ جس روز اہلِ اسلام جانوروں کے حلق پر چھری چلاتے ہوئے اس دعا کے الفاظ کو دہراتے ہیں ’’میری نماز اور میری عبادت‘ میرا جینا اور مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اول فرمانبردار ہوں‘‘۔ اس دعا میں قربانی کا فلسفہ بھی واضح ہے اور فرمانبرداری کے طریقے کی طرف رہنمائی بھی۔ آج مگر ہم نے اس عظیم فریضے کو قربانی کی رسم اور گوشت کے مختلف پکوان تیار کرنے تک محدود کر کے اس کی اصل حکمت اور فلسفے کو فراموش کر دیا ہے۔ ہمیں انفرادی کے ساتھ ساتھ آج اجتماعی‘ قومی وملّی سطح پر بھی فلسفۂ قربانی کی تجدید کی ضرورت ہے۔ آج ہمارا معاشرہ قربانی کے جذبے سے عاری اور نفسانفسی کا شکار نظر آتا ہے اور نفسانفسی کا جھکڑ ہر شعبۂ زندگی میں دھول اڑا رہا ہے۔ بغض‘ کینہ‘ خود غرضی‘ اَنا پرستی‘ نفرت اور دھوکا دہی جیسی علتیں آج ہمارے سماج کا سرورق بن چکی ہیں۔ مسجد الحرام کے امام و خطیبِ حج شیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد نے خطبہ حج میں انہی مسائل کو موضوع بنایا اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ باہمی تعاون اور مدد کا جذبہ قائم رکھو‘ ایک گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے‘ کسی کو تضحیک آمیز ناموں سے نہ پکارو‘ کسی کا مال ہڑپ نہ کرو‘ اسلام نے حق دار کو حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے ایمان والوں حقوق العباد کا خیال رکھو۔ آج ہمیں فلسفۂ قربانی پر عمل کرتے ہوئے حبِ مال اور حبِ جاہ کے ان جانوروں کی قربانی دینے کی بھی ضرورت ہے جو ہمیں ناانصافی اور ظلم و ستم پر آمادہ کرتے اور ہمارے اندر ہی پرورش پاتے رہتے ہیں۔ یہ دنیا دارالعمل ہے‘ اس میں وہی معاشرہ پُرسکون رہ سکتا ہے جس کے افراد میں ایک دوسرے کے لیے قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے‘ جہاں ایک دوسرے کے دکھ درد کا خیال رکھا جاتا اور دوسروں کی تکالیف کو کم کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ آج ہمیں سنتِ ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اپنا محاسبہ بھی کرنا ہے کہ قربانی کا یہ تہوار ہم سے کس کس حرص‘ خواہش‘ علت اور عادت کی قربانی کا طلبگار ہے۔ اگر ملکی سطح پر دیکھا جائے تو ہماری سیاسی قیادت اپنی اپنی اَنائوں کے حصار میں قید‘ ملک و قوم کے مفادات کے لیے ایک میز پر بیٹھنے سے گریزاں ہے۔ ہماری سیاسی قیادت کو چاہیے کہ عید قربان کے اس بابرکت موقع پر اپنی اَنا کے بت کی قربانی دے اور ملک کو سیاسی استحکام کی راہ پر گامزن کرے۔ عالمی سطح کا جائزہ لیں تو غزہ آج ایک مقتل گاہ کا منظر پیش کر رہا ہے‘ صہیونی جارحیت بے لگام ہو چکی ہے‘ امتِ مسلمہ کو اب یکجا ہو کر فلسطینی مظلوموں کی مدد کیلئے آگے بڑھنا چاہیے۔ گزشتہ چند برسوں میں معاشرتی سطح پر گرانی اور افلاس کی شرح میں جس شدت سے اضافہ ہوا ہے‘ وہ محتاجِ وضاحت نہیں‘ لہٰذا لازم ہے کہ اس پُرمسرت موقع پر ہم اُن طبقات کو بھی باعزت طریقے سے اپنی خوشیوں میں شریک کریں جو قربانی کرنا تو کجا‘ اپنی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ دوسری جانب عام مشاہدہ ہے کہ لوگ عیدِ قربان پر جانوروں کی آلائشوں کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہیں لگاتے۔ یہ امر اسلامی تعلیمات کی روح اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے سخت منافی ہے۔ اس حوالے سے انتظامیہ اور حکومتیں تو کام کر رہی ہیں‘ بطور ذمہ داری شہری ہمیں بھی اپنے فرائض سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں