سیاحوں کا اغوا
کوئٹہ کے علاقے زرغون غر میں واقع ایک پکنک پوائنٹ سے شناخت پریڈ کے بعد دس افراد کا اغوا دہشت گردوں کی صوبائی عصبیت کو ہوا دینے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ رواں برس اپریل میں بلوچستان کے ضلع نوشکی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مزدوروں کو اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس سے قبل تربت میں بھی اسی قسم کا ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آ چکا ہے۔ شدت پسند عناصر کی ان مذموم کارروائیوں کا مقصد صوبے میں امن و امان کی صورتحال اور معاشی سرگرمیوں کو زک پہنچانے کے سوا کچھ نہیں۔ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے‘ ان وسائل کو مصرف میں لا کر نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کی معاشی حالت سنور سکتی ہے لیکن دہشتگرد اور شدت پسند عناصر کو یہ گوارا نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے مظلوم شہریوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ افواجِ پاکستان اور سکیورٹی فورسز ان شدت پسند عناصر کے خلاف برسرِ پیکار ہیں اور اَنتھک کوششوں اور لاتعداد قربانیوں سے نہ صرف بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے بلکہ معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملا ہے۔ یہ حقیقت اب عیاں ہو چکی ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشتگردی اور شدت پسندی کے واقعات میں ملوث عناصر کو افغانستان سے کمک ملتی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کا اقوامِ متحدہ میں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروپوں سے ہتھیاروں کی بازیابی کیلئے مشترکہ مہم کا مطالبہ بروقت اور جائز ہے جس پر بلاتاخیر عملدرآمد یقینی بنایا جانا چاہیے۔