اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مذاکرات ہی مسائل کا حل

وفاق اور خیبر پختونخوا میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا تنازع دوبارہ زور پکڑ گیا ہے اور بدھ کے روز وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے لوگوں کے ہجوم کے ہمراہ ڈیرہ اسماعیل خان میں گرڈ سٹیشن میں داخل ہو کر بجلی بحال کر دی۔ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر کئی ممبرانِ اسمبلی نے بھی اپنے اپنے علاقوں میں گرڈ سٹیشنوں میں داخل ہو کر زبردستی بجلی بحال کرا دی۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ اگلے اقدام کے طور پر نیشنل گرڈ کو بجلی کی فراہمی بند کر سکتے ہیں۔ بعد ازاں وفاقی وزیر داخلہ اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر مشاورت‘ مذاکرات اور افہام وتفہیم سے مسئلے کے حل پر اتفاق کیا۔ دوسری جانب وفاقی وزیر توانائی کے وزیر داخلہ کو لکھے گئے مراسلے میں اس صورتحال کو بجلی عملے اور گرڈ سٹیشنوں کیلئے خطرے کا باعث قرار دیتے ہوئے مدد طلب کی گئی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے دورانیے کا تنازع کئی مہینوں سے وفاق اور کے پی کے باہمی تعلقات میں حائل ہے اور گزشتہ ماہ بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا جس کے بعد وفاق اور صوبائی حکومت نے بجلی کے نقصانات پر قابو پانے کیلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ‘ وزیر توانائی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی مشترکہ پریس کانفرنس کو سیاسی قوتوں کی فتح کی علامت کے طور پر دیکھا گیا تھا اور عوام نے بھی سکھ کا سانس لیا تھا کہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا ہے مگر اب وزیراعلیٰ کی جانب سے نیشنل گرڈ کو بجلی کی فراہمی بند کرنے کے اعلان سے معاملہ دوبارہ بگڑتا محسوس ہو رہا ہے۔ قیامت خیز گرمی میں طویل لوڈشیڈنگ کا مسئلہ کسی ایک علاقے یا شہر تک محدود نہیں بلکہ پورا ملک توانائی کے بحران سے دوچار ہے؛ البتہ لوڈ شیڈنگ کے دورانیے کا تعین‘ حکام کے مطابق‘ متعلقہ فیڈرز کے خسارے سے کیا جاتا ہے۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) حکام کے مطابق صوبے میں 1300 سے زیادہ فیڈرز ہیں‘ ایسے فیڈرز جہاں خسارہ 30 فیصد تک ہے‘ وہاں چھ گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ 60 فیصد تک خسارے والے فیڈرز پر 12 گھنٹے اور 80 فیصد تک خسارے والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹے ہے۔ بجلی کے خسارے کو کم کرنے کیلئے وفاق اور صوبوں‘ سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ اس حوالے سے گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی کی یہ تجویز بھی قابلِ غور ہے کہ مسئلے کا آسان حل یہ ہے کہ صوبائی بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں متعلقہ حکومتوں کے حوالے کر دی جائیں جو بل بھی وصول کریں اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی خود طے کریں۔ اگر فریقین ایک میز پر بیٹھیں تو مسئلے کا حل نکالنا مشکل نہیں ہے مگر اپنی بات منوانے اور دوسروں کی نفی کرنے کی سیاسی روش مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں مختلف صوبوں میں مختلف جماعتوں کو مینڈیٹ ملا ہے اور وفاق میں بھی مخلوط حکومت ہے‘ عوام اس ماحول میں تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر ایک ساتھ ملک کی خدمت کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وفاقی جمہوری معاشروں میں صوبوں کا وفاق سے اختلاف پیدا ہونا ایک معمول کی بات سمجھی جاتی ہے مگر تصفیہ طلب معاملات کو اشتعال دلانے کے بجائے انہیں ہم آہنگی اور افہام و تفہیم سے حل کیا جانا چاہیے۔ دیکھا جائے تو ہمارے اکثر مسائل کی تہہ میں مذاکرات اور بات چیت سے انکار کا رویہ کارفرما ہے۔ قومی اقتصادی کونسل اور مشترکہ مفادات کونسل ایسے مسائل کے حل کے مؤثر فورم ہیں۔ اس طرح کے فورمز کو مزید فعال بنانا چاہیے تاکہ وفاق کی صوبوں کے ساتھ رابطہ کاری اور ہم آہنگی کو فروغ ملے۔ فریقین کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں ایک ہی کشتی کی سوار ہیں‘ کوئی فریق نہ تو دوسرے سے کٹ کر آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی اکیلا ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔ یہ کشتی اسی صورت میں آگے بڑھ سکتی ہے جب اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے تمام سوار یکسو ہو کر آگے بڑھنے کا عزم کریں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں