اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

شنگھائی تعاون تنظیم اور کثیرجہتی تعاون

وزیر اعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے 24ویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علاقائی اور عالمی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مؤثر کثیرجہتی تعاون کو اہم قرار دیتے ہوئے دھمکیوں یا طاقت کے یکطرفہ اور غیر قانونی استعمال کی مخالفت اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور دیرینہ و جاری تنازعات کے منصفانہ اور پُرامن حل کیلئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم نے اسلامو فوبیا اور فلسطینی عوام کی بے پناہ مشکلات کی طرف بھی دنیا کی توجہ مبذول کرائی اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کی انکوائری رپورٹ کی توثیق کی جس میں اسرائیل کی کارروائیوں کو جنگی جرائم اور عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے نسل کشی قرار دیتے ہوئے جوابدہی کا مطالبہ کیا گیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم یوریشیا کے خطے میں سیاسی‘ اقتصادی اور عسکری تعاون کے اہم پلیٹ فارم کے طور پر نمایاں حیثیت کی حامل ہے‘ جس کے رکن ممالک میں اضافے کیساتھ اس کا دائرہ کار‘ علاقائی اہمیت اور اثر ورسوخ بتدریج بڑھتا جارہا ہے۔ 2001ء میں جب اس تنظیم کا وجود عمل میں آیا تو چین اور روس کے علاوہ چار وسطی ایشیائی ریاستیں اس کی رکن تھیں مگر اب پاکستان‘ بھارت اور ایران سمیت دس ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان میں شامل ہیں۔ دس مکمل ارکان کے علاوہ ترکیہ‘ سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات اور قطر جیسی مشرقِ وسطیٰ کی اہم ریاستیں اور سری لنکا‘ نیپال اور مالدیپ جیسے جنوبی ایشیائی ممالک بطور ڈائیلاگ پارٹنر اس تنظیم سے وابستہ ہیں۔ حالیہ اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اتونیو گوتریس نے بھی شرکت کی اور وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے دورۂ پاکستان اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ چین‘ روس اور ترکیہ سمیت اہم علاقائی طاقتوں کے سربراہانِ ریاست کی شرکت شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت کو اجاگر کرتی اور آنیوالے وقت میں اس کے اثر ورسوخ میں مزید اضافے کی غمازی کرتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں افغان مسئلے کو بھی اجاگر کیا اور افغانستان کو باور کرایا کہ دہشتگردی کے خلاف مؤثر اقدامات کرے تاکہ اس کی سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پائیدار اور مستحکم افغانستان ہی اس خطے کے مفاد میں ہے۔ طالبان کی عبوری حکومت کو بھی ادراک کرنا ہو گا کہ پچھلی دو دہائیوں کے دوران دنیا غیر معمولی طور پر بدل گئی ہے‘ ارتقا کا تقاضا ہے کہ وقت کیساتھ ساتھ اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لائی جائے۔ پچھلے تین سال کا تجربہ بھی طالبان حکومت کو یہ باور کرانے کیلئے کافی ہو گا کہ آج کے دور میں الگ تھلگ اور دنیا سے کٹ کر رہنا ممکن نہیں اور ہر ریاست بہت سے معاملات میں دنیا بالخصوص علاقائی ممالک کی محتاج ہوتی ہے۔ اس لیے طالبان قیادت کو وقت کے تقاضوں کیساتھ چلنا ہو گا اور دہشتگرد گروہوں کی آبیاری اور سرپرستی کے تاثر سے خود کو پاک کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں شنگھائی تعاون تنظیم بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے کہ جغرافیائی اور آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے اور اس کا مشترکہ جی ڈی پی عالمی جی ڈی پی کا لگ بھگ پانچواں حصہ ہے اور یہ فورم رکن ممالک کی آبادی اور انفرادی سطح پر صنعتی و زرعی پیداوار اور ان ممالک کے باہمی لین دین کیلئے ترقی کے روشن امکانات پیدا کر سکتا ہے مگر اس حوالے سے جہاں بہت سے امکانات پائے جاتے ہیں وہیں چیلنجز کی بھی کمی نہیں۔ علاقائی رابطے کیلئے انفراسٹرکچر اور تجارتی فروغ کا ابھی بہت سا کام باقی ہے تاکہ رکن ممالک آپس کے روابط کو مضبوط کر سکیں۔ اسی طرح صنعتی اور پیداواری شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے تا کہ مادی وسائل‘ افرادی قوت اور خام مال کی پیدوار ی صلاحیت سے شترکہ طور پر فائدہ اٹھایا جا سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں