امریکہ میں پاکستانی سفیر مسعود خان کا کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد فارن آفس سے رضوان سعید شیخ کو بھیجنے کی خبر ہے۔ یقینا ہر سروس کے افسران کی کوشش ہوتی ہے کہ انہی کے افسران ان اہم پوسٹس پر تعینات ہوں۔ اگرچہ ماضی میں کچھ اہم سٹیشنز پر فارن سروس سے ہٹ کر بھی تعیناتیاں ہوتی رہی ہیں جس پر فارن آفس کبھی خوش نہیں رہا۔
دیکھا جائے تو امریکہ میں نان ڈپلومیٹک شخصیات کو سفیر لگایا گیا تو وہ نسبتاً کامیاب رہے۔ میڈیا اور عوام کسی سفیر کا نام جانتے ہیں تو وہ سیاسی طور پر تعینات ہونے والے سفیر تھے جنہوں نے بڑی خبریں بنائیں۔حالیہ تاریخ میں جو پہلی سیاسی تعیناتی امریکہ کیلئے کی گئی تھی وہ سیدہ عابدہ حسین کی تھی‘ جب نوا ز شریف پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تھے۔عابدہ حسین کاامریکہ میں سفیر لگنا بڑی خبر تھی۔شاید بینظیر بھٹو کے 1988ء میں پہلی خاتون وزیراعظم بننے سے وہ نفسیاتی بیرئیر ٹوٹ گیا تھا کہ ایک مسلمان ملک میں خواتین اہم اور بڑے عہدوں پر کام نہیں کرسکتیں۔عابدہ حسین بینظیر بھٹو سے اپنا موازنہ کرتی تھیں لہٰذا ان کے نزدیک امریکہ میں سفیر لگنا پاکستان کا وزیراعظم بننے سے کم اہم نہیں تھا۔عابدہ حسین نے اپنے دور کی سنسنی خیز تفصیلات اپنی آٹوبائیوگرافی ''Power Failure‘‘ میں لکھی ہیں۔ یہ کتاب بھی پڑھنے کے قابل ہے خصوصاًجنرل آصف نواز جنجوعہ کا دورۂ امریکہ‘ ایف سولہ طیاروں کی قیمت واپس کرنے کا ایشو جس پرانہیں خاموش رہنے کے عوض کچھ ''پیش کش ‘‘بھی کی گئی تھی ۔یا پھر ہنری کسنجر سے ملاقات میں بھٹو کی دھمکی کا بیک گراؤنڈ۔سفارت کاری کی دنیا میں ملیحہ لودھی ایک اور بڑا نام ہیں۔ بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں انہیں امریکہ میں سفیر لگایا۔ پھر وہ جنرل مشرف دور میں امریکہ میں سفیر رہیں۔ ملیحہ لودھی کا شمار بھی قابل سفارت کاروں میں ہوتا ہے۔نواز شریف دور میں نیویارک میں پاکستان کی مستقل نمائندہ کے طور پر بھی تعینات رہیں۔ملیحہ لودھی نے کبھی اپنی آٹوبائیوگرافی لکھی تو وہ انتہائی اہم ہوگی۔مجھے ملیحہ لودھی کی آٹوبائیوگرافی کا شدت سے انتظار ہے۔
پھر ایک بڑی سیاسی تعیناتی پرویز مشرف نے کی تھی جب سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو امریکہ میں سفیر لگایا۔ افغانستان جنگ میں پاکستان آرمی کو امریکہ میں اپنا قابلِ اعتماد بندہ چاہیے تھا ‘جو امریکہ اور فوج کیلئے قابلِ قبول ہو۔ تب قرعۂ فال جنرل جہانگیر کرامت کے نام نکلا۔ اس کے بعد بڑی سیاسی تعینا تی پیپلز پارٹی حکومت نے 2008ء میں کی تھی جب حسین حقانی کو امریکہ میں سفیر لگایا گیا۔حسین حقانی نے امریکہ میں بینظیر بھٹو کو کانگریس مین‘ بُش انتظامیہ اور دیگر اہم لوگوں کیساتھ ملانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ حسین حقانی شاید پہلے پاکستانی تھے جن کے امریکن سیاستدانوں اور انتظامیہ کیساتھ گہرے روابط تھے۔ انہوں نے بینظیر بھٹو کو گائیڈ کیا اور آخر امریکن اس بات پر قائل ہوگئے کہ صدر مشرف اب سیاسی بوجھ بن رہے ہیں‘بہتر ہوگا کہ امریکہ پاکستان میں سیاسی تبدیلیاں لائے اور پہلا چوائس بینظیر بھٹو تھیں۔سیکرٹری خارجہ کنڈولیزا رائس نے بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کی ڈیل کرانے میں امریکی اور برطانوی کردار پر تفصیل سے اپنی آٹوبائیوگرافی میں روشنی ڈالی ہے۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو صدر زرداری کو اچھی طرح علم تھا کہ امریکہ میں اگر کوئی پاکستان اور پی پی پی حکومت کے مفادات کا خیال رکھ سکتا ہے تو وہ حسین حقانی ہے۔حقانی اپنے دور کے طاقتور سفیر مانے گئے۔ انکی امریکی انتظامیہ ‘ کانگریس اور سینیٹرز تک اتنی رسائی تھی کہ ایک موقع پر جنرل کیانی اور جنرل شجاع پاشا نے انہیں اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھا۔ شاید حسین حقانی پہلے سفیر تھے جنہوں نے امریکہ کو اس بات پر قائل کیا تھا کہ وہ اپنی پالیسی بدلے۔ امریکہ اب تک پاکستان میں جرنیلوں سے ڈیل کرتا رہا‘براہِ راست امداددیتا رہا‘ سویلین/سیاسی لیڈرز کو امریکہ نے اہمیت نہیں دی۔ طالبان پر ڈبل پالیسی پر بھی حسین حقانی کا نقطہ نظر پاکستانی مقتدرہ سے مختلف تھا۔ یوں حسین حقانی کی کوششوں سے کیری لوگر بل منظور ہوا اور پہلی دفعہ امریکہ نے اپنی امداد کا رُخ براہِ راست سویلین حکومت اور پاکستان کے سوشل اور معاشی سیکٹر کی طرف موڑا اور اس مقصد کیلئے چھ‘ سات ارب ڈالرز کی امداد منظور کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل کیانی اور جنرل پاشا حسین حقانی کے دشمن بن گئے اور پھر میمو گیٹ سکینڈل سامنے لایا گیا۔ اس سکینڈل کو پروموٹ کرنے والے یہی نواز شریف اور شہباز شریف تھے جو کیانی اور شجاع پاشا کے کہنے پر کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے اور میمو گیٹ کیس میں زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور حقانی کے خلاف کمیشن بنوا کر لوٹے۔
حسین حقانی کو پاکستان بلا کر استعفیٰ لے کر نام ای سی ایل پر ڈال دیا گیا۔ یہ نتیجہ نکلا تھا جب حقانی نے پاکستانی سیاستدانوں اور سویلین کو امریکہ میں اہمیت دلوانے کی کوشش کی تھی۔ حقانی کو امریکہ میں اگر سمجھداری اور ٹھنڈے دماغ سے استعمال کیا جاتا تو وہ پاکستان کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتے تھے۔ چند برس بعد جنرل باجوہ کو اس بات کا احساس ہوا اور حسین حقانی ایک لابنگ کیلئے ہائر کیا گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری فوج کو انکی اہمیت کا ہمیشہ سے احساس رہا ہے۔ حسین حقانی کے بعد شیری رحمن کو امریکہ میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ وہ بھی کامیاب رہیں۔ شیری رحمن دراصل عابدہ حسین اور ملیحہ لودھی کے بعد تیسری خاتون تھیں جنہیں سفیر بنا کر امریکہ بھیجا گیا۔ شاید یہ ریکارڈ پاکستان کے پاس ہوگا کہ تین ٹاپ خواتین نے امریکہ جیسی سپرپاور کے کیپٹل میں پاکستان کیلئے سفارتی خدمات سرانجام دیں۔
یہ نان ڈپلومیٹ سفیر نسبتاًکامیاب رہے کیونکہ یہ روایتی سفارت کاروں کے برعکس سیاسی/صحافتی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے رِسک لینے کے عادی تھے اور کھل کر بات کرتے تھے۔یقینی طور پر فارن سروس کے قابل لوگ بھی امریکہ میں سفیر رہے ہیں جن میں ریاض کھوکھر اور جلیل عباس جیلانی کے نام نمایاں ہیں۔ ایک اور سفیر اسد مجید کا نام بھی شاید پاکستانیوں کو بڑے عرصہ تک نہیں بھولے گا انکے دور میں سائفر سکینڈل سامنے آیا اور ایسا بحران پیدا ہوا کہ پہلے عمران خان کی حکومت ختم ہوئی پھر اس سائفر میں سابق وزیراعظم کو قید کی سزا دی گئی۔ اسد مجید کے بھیجے گئے سائفر نے پاکستان اور پاکستانی سیاست کا نقشہ اورپاک امریکہ تعلقات کی نیچر بدل دی۔لیکن اب جب مسعود احمد خان کو امریکی کانگریس میں منظور ہونیوالی قرارداد کے بعد شہباز حکومت کی ناراضی کی وجہ سے نیا کنٹریکٹ دوبارہ نہیں ملا‘ ان حالات میں یہ سوال اپنی جگہ پھر پیدا ہورہا ہے کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر کون ہونا چاہیے؟ سیاسی تعیناتی کامیاب ہے یا فارن آفس کا ڈپلومیٹ؟
اب کانگریس میں پیش کی گئی قرارداد کے بعد فارن آفس ڈپلومیٹس دبائو میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق فارن آفس اور وزیراعظم ہاؤس اس بات پر ششدر ہیں کہ پچھلے سال نومبر میں پیش کی گئی قرارداد‘ جس پر سو سے زائد کانگریس مین کے ابتدائی دستخط تھے‘ اسے سفارتکار سات آٹھ ماہ تک کاؤنٹر کیوں نہ کرسکے؟اگرچہ عمران خان اور انکی پارٹی جائز طور پر خوش ہیں لیکن صدمے کا شکار شہباز شریف حکومت اور مقتدرہ کو سمجھ نہیں آرہی کہ امریکہ میں ان کیساتھ کیا ہاتھ ہوا ہے۔ یہ بھی دلچسپ اتفاق ہے کہ سائفر کے وقت بھی فارن آفس سروس کا ڈپلومیٹ ہی امریکہ میں سفیر تھا اور اب کانگریس کی قرارداد کے وقت بھی۔ ویسے فارن آفس کے ڈپلومیٹس سیاسی تعیناتیوں کے سخت خلاف رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی طور پر تعینات ہونیوالے لوگ سفارت کاری نہیں جانتے‘صرف فارن آفس کے برسوں کے تربیت یافتہ سفارت کار ہی جانتے ہیں کہ سفارت کاری کس بلا کا نام ہے اوران سے بہتر کوئی نہیں جانتاکہ امریکہ میں سفارت کاری کیسے کی جاتی ہے۔