حکومتوں کا بنیادی کام ملک کا نظم و نسق برقرار رکھنا اور عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اسی میں روزمرہ کے انتظامی امور جیسا کہ قانون نافذ کرنا‘ انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال اور بنیادی خدمات فراہم کرنا شامل ہیں۔ ان معاملات میں حکومتیں عام طور پر مہارت اور تجربے کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں‘ تاہم جب قومی نوعیت کے پیچیدہ مسائل سامنے آتے ہیں جیسا کہ معاشی بحران‘ قومی سلامتی کے خطرات یا آئینی اصلاحات تو ان کے حل کے لیے اکثر مختلف نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے معاملات میں حکومتوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپوزیشن سمیت تمام متعلقہ فریقوں کی رائے اور مشورے کو بھی شامل کریں۔ ایسے ہی ایک قومی نوعیت کے معاملے میں22 جون کو نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی۔ حکومت نے اسے معمول کا فیصلہ سمجھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کو ضروری نہیں سمجھا اور معمول کے اجلاس میں تنہا فیصلہ کر لیا‘ مگر اپوزیشن اور قوم پرست جماعتوں نے اس پر ردِعمل دیا۔ آپریشن عزم استحکام کے خلاف موقف پیش کرنے والی جماعتوں کو آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی پر سب سے بڑا اعتراض ہے۔ عزم استحکام پر تحفظات کا اظہار کرنے والی جماعتوں میں خیبرپختونخوا کی سیاسی و قوم پرست جماعتیں سرفہرست ہیں‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ صوبہ طویل عرصے سے دہشت گردی اور آپریشنوں سے متاثر ہے؛چنانچہ آپریشن کے اعلان کے بعد ردِعمل فطری تھا۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کا بھیانک کھیل اب بھی جاری ہے‘ سابق سینیٹر ہدایت اللہ کا پانچ ساتھیوں سمیت اندوہناک قتل صوبے میں شدت پسند عناصر کی موجودگی پر دلالت کرتا ہے۔ ہدایت اللہ مرحوم ہمارے دیرینہ دوست تھے‘ آہ! دہشت گردی نے ہم سے کیسے کیسے ہیرے چھین لیے۔ خدا اُن کے درجات بلند فرمائے۔آمین!
اپوزیشن کے تحفظات پر وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک وضاحتی بیان میں بتایا گیا کہ یہ آپریشن ماضی سے مختلف ہو گا اور لوگوں کی نقل مکانی کی نوبت نہیں آئے گی‘ مگر قومی سطح کے معاملے پر پائی جانے والی کنفیوژن کو ختم کرنے کیلئے محض ایک وضاحتی بیان کافی نہیں۔ اپوزیشن کا دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ اگر فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے تواراکینِ پارلیمنٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟ انہی اعتراضات کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے عزم استحکام کے معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا۔ اس اعلان کے بعد نئی بحث چل نکلی کہ تحریک انصاف بطور جماعت اے پی سی میں شریک ہو گی یا نہیں؟ اس ضمن میں عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو میں کہہ دیا ہے کہ ان کی جماعت کے نمائندے ملک کی خاطر آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہوں گے اور حکومت کا موقف سنیں گے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان پابندسلاسل ہیں‘ کیا ایسا راستہ نکالا جائے گا کہ جس سے عمران خان خود اے پی سی میں شریک ہو سکیں یا ان کی جماعت کی نمائندگی کو کافی سمجھا جائے گا؟ اے پی سی میں شرکت کیلئے عمران خان کو پیرول پر رہا کرنے سے حکومت و اپوزیشن کے درمیان جاری سیاسی تناؤ کم ہو گا۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے جیل میں سہولیات کی عدم فراہمی کی بنا پر بھوک ہڑتال پر جانے کا عندیہ دیے جانے کے بعد اس بات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ اے پی سی میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کیلئے عمران خان کو مدعو کرنے کیلئے گنجائش نکالی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قومی نوعیت کے معاملات سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے بالاتر ہونے چاہئیں۔ کورکمانڈر کانفرنس میں آپریشن عزم استحکام کو انسداد دہشت گردی کیلئے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے ضمن میں اہم قدم قرار دیتے ہوئے اس کی توثیق کی گئی ہے‘ مطلب یہ کہ حکومت جو فیصلہ کر چکی ہے اس سے واپسی ممکن نہیں۔ ایسی صورتحال میں جب حکومت کیلئے اپوزیشن کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے تو وسیع تر قومی مفاد میں اپوزیشن کی مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تنہا فیصلے کرنے کے بجائے اپوزیشن کو قومی نوعیت کے فیصلوں میں شامل کیا جائے۔ اے پی سی اپوزیشن کو قریب لانے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے مگر اس مقصد کیلئے حکومت کو پہلے مرحلے میں لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ قوم کی ترقی اور استحکام اس بات میں پنہاں ہے کہ وہ اپنے مسائل کا حل کس طرح تلاش کرتی ہے۔ اگر فیصلے ایک جماعت یا ایک فرد کی مرضی کے تحت کیے جاتے ہیں تو پھر قوم کے مختلف طبقات اور علاقوں کے مفادات نظر انداز ہو تے ہیں‘ جب قومی مسائل کو مشاورت اور اتفاقِ رائے کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے کئی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ مشاورت کے ذریعے مختلف نقطہ نظر سامنے آتے ہیں جس سے جامع اور مؤثر حکمت عملی تشکیل دی جا سکتی ہے جس سے قومی مفاد میں بہتر فیصلے ہوسکتے ہیں اور عوام کا اعتماد حکومت پر بڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح اتفاقِ رائے سے بنائے گئے قوانین اور پالیسیاں زیادہ مستحکم ہوتی ہیں۔ جب اقتدار کے تمام شراکت دار کسی حل پر متفق ہوتے ہیں تو اس پر عمل درآمد میں رکاوٹیں کم پیش آتی ہیں۔ معاشرے کے مختلف طبقات خود کو اس کا حصہ سمجھتے ہیں اور اس کی کامیابی کے لیے تعاون کرتے ہیں۔ مشاورت اور اتفاق ِرائے سے قومی یکجہتی مضبوط ہوتی ہے کیونکہ جب لوگوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی رائے لی گئی ہے اور ان کے مسائل پر توجہ دی جا رہی ہے تو وہ ملکی ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے زیادہ پُرعزم ہوتے ہیں۔ اس سے قومی یکجہتی اور بھائی چارے کا ماحول بنتا ہے جو کسی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
آئندہ ہفتے کسی روز آل پارٹیز کانفرنس بلائے جانے کا امکان ہے۔ اے پی سی میں سیاسی جماعتیں جن نکات پر متفق ہوں ان کی پارلیمان سے توثیق کرائی جائے تاکہ مستقبل میں جب دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہو تو یہ ایشو پھر سر نہ اٹھائے کہ اب ہم نے کیا کرنا ہے‘ کیونکہ دہشت گردی کے خلاف مہم وقتی نہیں ہے۔ جب بیرونی سرمایہ کاری پاکستان آئے گی تو بدخواہ قوتوں کو ہماری معاشی بحالی کا سفر ہضم نہ ہو گا‘ عین ممکن ہے دہشت گردی کے خلاف ہمیں طویل جنگ لڑنی پڑے‘ اس لیے حکومت کو ساری ذمہ داری اپنے سر لینے کے بجائے صوبائی حکومتوں اور علاقائی جماعتوں کو اس بڑے مقصد میں شامل کرنا چاہیے تاکہ قومی نوعیت کے معاملے میں ایک ویژن کے تحت ہم آگے بڑھ سکیں۔ ایسا ویژن جسے حکومت ہی نہیں بلکہ قوم اور تمام سیاسی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہو۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیاسی جماعتیں کامیابی کا کریڈٹ لینے کی سوچ سے باہر نہیں نکل سکیں۔ یہ سوچ تقریباً ہر سیاسی جماعت میں پائی جاتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں قومی ویژن کا فقدان ہے۔ دنیا میں قومی ویژن کی متعدد مثالیں موجود ہیں‘ آپ سعودی ویژن 2030ء کو ہی دیکھ لیں‘ ایک ایک اینٹ قومی ویژن کے مطابق رکھی جا رہی ہے کیونکہ ویژن ہی قوم کو ایک مشترکہ مقصد فراہم کرتا ہے کہ ہم سب مل کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کس سمت میں جانا چاہتے ہیں۔ قومی ویژن ایک مشترکہ خواب ہے۔ اس سے قوم میں یکجہتی اور اتحاد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور لوگ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔