اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیاسی جماعتیں اور لیڈر شپ کا بحران

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی قیادت میںایک نئی جماعت ملک کے سیاسی اُفق پرابھرنے کو تیار کھڑی ہے۔ گزشتہ روز اسی پارٹی کی تاسیسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ملکی نظام کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومتیں ان مسائل کا حل پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں۔اس میں دو رائے نہیںکہ ملکِ عزیز کے معاشی اور سیاسی مسائل خاصے تشویشناک ہو چکے ہیں۔ معاشی نمو کا کوئی دعویٰ سچ ثابت نہیں ہو رہا۔ پاکستان کئی طرح کے وسائل سے مالا مال ہے مگر ان سے بھی صحیح طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں ہو رہی۔ عوام میں مایوسی اور بددلی بھی بتدریج بڑھتی جارہی ہے ۔ یہ صورتحال ایک ایسے ملک کی ہے جہاں 170 کے قریب سیاسی جماعتیں پہلے ہی رجسٹرڈ ہیں اور یقینا سبھی کا منشور اور ماٹو ملک اور عوام کی ترقی و خوشحالی اور مسائل سے نجات دلانا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان میں سے درجن بھر ہی ملکی سطح کی جماعت کہلانے کی حقدار ہیں اور ان میں سے بھی شاید آدھی کے قریب ایسی ہیں جنہیں کسی نہ کسی سطح پر حکومت کرنے کا موقع ملا۔ مگر سیاسی جماعتوں کی تعداد بڑھنے سے ملکی مسائل میں کمی نہیں آئی؛ ان حالات میں یہ سوال برمحل معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی اکھاڑے میں اُترنے والی ایک نئی جماعت جس کی صف اوّل کی تقریباً ساری قیادت ایک اور سیاسی جماعت سے الگ ہو کر آئی ہے‘ ان دیرینہ مسائل کا کیا حل پیش کرسکتی ہے؟ نئی جماعت کے رہنماؤں کو یہ رعایت دی جاسکتی ہے کہ وہ سیاسی سسٹم کاحصہ رہ چکے ہیں اس لیے نظام کی بو العجیبیوں سے اچھی طرح واقف ہیں‘ مگر ملک و قوم کے دیرینہ مسائل کی چارہ گری کیلئے ان کی اہلیت کا تعین اس واقفیت سے نہیں ہو سکتا بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ ماضی میں جب ان رہنماؤں کے پاس اختیار تھا تو انہوں نے نظام کے ان مسائل کو حل کرنے میں کیا کردار ادا کیا‘ کون سا اصلاحی عمل شروع کیا جو بعد ازاں جاری نہ رکھا گیا ‘اور کیا ان کی اصلاحی پالیسی پر عملدرآمد نہ ہونا انکا اپنی سابق سیاسی جماعتوں سے علیحدگی کا پیش خیمہ ثابت ہوا؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل کسی نئی سیاسی جماعت کے قیام کا مرہونِ منت نہیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی قیادت مخلصانہ جذبے اور بلند شعوری سطح کیساتھ ملک کی خدمت کرے۔ آج ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھنے والے رہنما بھی جانتے ہیں کہ ایک نئے سیاسی پلیٹ فارم کا اعلان کر دینا آسان مگر ایک نئی سیاسی پارٹی کی ترویج دقت طلب کام ہے ۔ آج جس نئی پارٹی کے قیام کا اعلان ہو رہا ہے اسے عوامی حافظے میں جگہ بنانے اور پارلیمان تک پہنچنے میں شاید دہائیاں لگ جائیں ‘ مگر پاکستان کے مسائل کے حل کو اس وقت تک معرض التوا میں نہیں ڈالا جا سکتا؛چنانچہ نئی جماعت کے بجائے پہلے سے موجود جماعتوں پر اس کیلئے زیادہ ذمہ داری ہے ۔ عوام بھی جانتے ہیں اور نئی سیاسی پارٹیاں بنانے والے بھی کہ نئی پارٹی بنانا آسان نہیں ‘ مگر ہمارے سیاسی نظام کی ناکامیاں ایک نئی جماعت کا جواز پیدا کیے رکھتی ہیں ۔ سیاسی جماعتیں خاص طور پر وہ جماعتیں جنہیں حکومت کا موقع ملا ہے‘ اگر انہوں نے اپنا کام ٹھیک طرح سے انجام دیا ہوتا تو یقینا ان جماعتوں سے الگ ہونے والے لوگ نئی جماعت تشکیل دینے سے پہلے سوبار سوچتے۔ آج اگر ملکی سطح پر ایک نئی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے‘ جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس پہلے ہی 170کے قریب جماعتیں رجسٹرڈ ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ سیاسی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں وہ کوتاہیاں برتی گئیں کہ لوگوں کی مایوسی دیدنی ہے اور یہی ایک نئی جماعت کے قیام کا جواز بن جاتا ہے۔ تاہم ملک عزیز کو اس وقت نئی جماعتوں کے بجائے مخلص سیاسی کارکن اور بے لوث سیاسی اپروچ رکھنے والے رہنما ؤںکی ضرورت ہے۔ پاکستان کا مسئلہ سیاسی جماعتوں کی کمی نہیں لیڈر شپ کا بحران ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں