اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

دارالحکومت میں احتجاج

اسلام آباد میں سیاسی جماعت کے احتجاج کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال تشویش کا باعث ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ کے دوران احتجاجی سرگرمیوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران اسلام آباد اور لاہور میں جلسے ہوئے‘ پھر راولپنڈی میں جلسہ کرنے کی کوشش کی گئی اور اب پھر اسلام آباد کی شامت آئی ہے۔ ان احتجاجی سرگرمیوں کی سب سے بھاری قیمت ان شہروں کے مکینوں کو ادا کرنا پڑتی ہے جہاں یہ منعقد ہوتی ہیں‘ مگر یہ اثرات یہیں تک محدود نہیں رہتے۔ انتظامیہ کی جانب سے اہم رابطہ سڑکوں کو بند کر دیا جاتا ہے‘ بالخصوص لاہور اسلام آباد موٹروے‘ جو ملک میں شمالاً جنوباً آمدورفت کی شہ رگ ہے‘ ان احتجاجوں کی وجہ سے ترجیحاً بند کی جاتی ہے۔ شاہراہوں کی بندش سے شہروں کے اندر اور گردو نواح میں مسافروں کو جو تکلیف اٹھانا پڑتی ہے اس کا کوئی حساب نہیں مگر موٹرویز کی بندش سے ملک بھر میں آمدورفت کی سرگرمیوں پر ناقابلِ تلافی اثر پڑتا ہے۔ اس دوران نجانے کتنے مریض بروقت ہسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے‘ لوگ اپنے ضروری کاموں کی ادائیگی میں ناکام رہتے ہیں اور آنے جانے والے مسافروں کو جب عین موقع پر پہنچ شاہراہ کی بندش کا پتا چلتا ہے تو ان کی پریشانی بے حساب ہوتی ہے۔ ملکِ عزیز میں عوام کی ذہنی پریشانیوں کے اسباب پہلے ہی کم نہیں اوپر سے یہ آئے روز کے احتجاجی جلسوں اور ان سے حاصل ہونے والی اذیت ایک نیا ذہنی صدمہ بن چکی ہے۔ احتجاج بنیادی حق ضرور ہے مگر اس کا قاعدہ‘ ضابطہ بھی ہے۔ احتجاجی سرگرمیوں کا موقع محل بھی دیکھنا چاہیے اور یقینی بنانا چاہیے کہ ملکی تشخص پر اس کے منفی اثرات نہ ہوں۔ مگر ہمارے ہاں بارہا ایسا ہو چکا ہے کہ احتجاجی سرگرمیاں کسی ایسے موقع پر ہی زور پکڑتی ہیں جب کوئی اہم غیر ملکی شخصیت پاکستان کے دورے پر ہو۔ حال ہی میں ملائیشیا کے وزیراعظم پاکستان کے دورے پر تھے اور ان تین دنوں کے دوران چار اکتوبر کے ممکنہ احتجاج سے دارالحکومت کی فضا افواہوں اور قیاس آرائیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ہم یہ باور کرنے میں ناکام رہے کہ ایک اہم ایشیائی ملک کے وزیراعظم دورے پر ہیں اور ہمارے ملک کیلئے یہ موقع بڑے عرصے بعد آیا ہے۔ اب اسی ماہ کے وسط میں شنگھائی تعاون تنظیم جیسی اہم ترین علاقائی تنظیم کا اجلاس اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس میں رکن ممالک کے حکومتی سربراہان کی شرکت یقینی ہے۔ اس موقع پر چینی وزیر اعظم لی چیانگ کا تین روزہ دورہ بھی متوقع ہے جبکہ گزشتہ روز بھارت کی جانب سے بھی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے دورۂ پاکستان کی تصدیق کی گئی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا یہ سربراہی اجلاس حکومت پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ اس موقع کی اہمیت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اس کی تیاری میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ تیاریوں کے ضمن میں سکیورٹی انتظامات قابلِ ذکر ہیں‘ تاہم اس دوران دارالحکومت میں اٹھنے والے احتجاجی طوفان کے منفی اثرات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان تک یہ تاثر پہنچنا ہی کافی ہوگا کہ پاکستان کے دارالحکومت میں سیاسی انتشار کا ماحول ہے۔ ضروری ہے کہ ایسا تاثر پیدا نہ ہونے دیا جائے اور دنیا تک یہی پیغام پہنچے کہ پاکستان کے سیاسی رہنما بالغ النظر ہیں اور مہذب ممالک کے سیاستدانوں کی طرح آپسی اختلافات کے باوجود قومی مفاد میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ دنیا کو یہ پیغام دینا ازبس ناگزیر ہے۔ پاکستان دنیا کے اس حصے کاایک اہم ملک ہے مگر سیاسی اور معاشی مسائل کی وجہ سے ہمارا سفارتی وزن کم ہو چکا ہے۔ اب اگر حالات نے  موقع پیدا کیا ہے کہ ہم علاقائی سیاست میں ساکھ بحال کرنے کے قابل ہوں تو اس قیمتی موقع کو سیاسی جھگڑوں کی نذر نہ کیا جائے۔ دنیا کیلئے موجودہ حالات غیر معمولی ہیں۔ اس صورتحال پر نظر رکھنا اور اپنا سفارتی وعالمی رسوخ بروئے کار لانا پاکستان کیلئے اہم ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں