اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

قرض‘ خسارہ اور ہمارا معاشی رویہ

وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز کوئٹہ میں صوبائی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ ڈوب مرنے کا مقام ہو گا اگر تین سال بعد بھی آئی ایم ایف کے پاس گئے۔اس سے ایک روز قبل وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک برطانوی اخبار کو دیے گئے انٹر ویو میں کہا تھا کہ ہم نے اپنی ٹیکس آمدنی میں اضافہ نہ کیا تو آئی ایم ایف کے ساتھ یہ ہمارا آخری پروگرام نہیں ہو گا۔آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا معاملہ مستقبل میں کیسا ہو سکتا ہے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے ان بیانات سے اس کا کسی حد تک اندازہ کیا جاسکتا ہے۔مگر کوئی ملک ہو یا کوئی فرد‘ قرض دہندہ کے پاس شوق سے نہیں جاتا‘ اس کی مالی ضرورتیں اُسے لے کر جاتی ہیں؛ چنانچہ وزیر خزانہ کا کہنا درست ہے کہ مالی وسائل بڑھائے بغیر آئی ایم ایف کے درِ دولت کی حاضری سے چھٹکارا ممکن نہیں۔جہاں تک وصولیاں بڑھانے کی بات ہے تو حالیہ بجٹ میں ٹیکس اہداف میں 40 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور ان میں سے تقریباً 60 فیصد ٹیکس بالواسطہ ٹیکس ہوں گے اور ان بالواسطہ ٹیکسوں میں سب سے بڑا حصہ جنرل سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کا ہے ۔جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کا اثر بلا امتیاز ہر شہری پر ہے ‘ جو اشیا ئے ضروریہ کی خریداری پر اُسے قیمت کے ساتھ ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ انکم ٹیکس میں سب سے بڑا حصہ اس تنخوا ہ دار طبقے کا ہے جس کی تنخوا ہ سے یہ رقم منہا کر لی جاتی ہے۔انکم ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے سے حکومت کو رواں مالی سال کے دوران تقریباً 3100 ارب روپے زیادہ وصول ہوں گے ۔ عوام پر اس اضافی مالی بوجھ کو حکومت کڑوا گھونٹ قرار دیتی ہے۔ مگر یہ مد نظر رہنا چاہیے کہ فقط ٹیکس وصولیاں بڑھا کر قومی خزانے کو نہیں بھرا جاسکتا۔ فی الحقیقت اس وقت قومی خزانے کے ان رخنوں کو بند کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے جن سے ہر سال ہزاروں ارب روپے بہہ جاتے ہیں۔ ٹیکس کی صورت میں عوام اور معیشت پر بڑھایا جانے والا بوجھ اس نکاسی کا ازالہ نہیں کر سکتا؛ چنانچہ نئے قرضوں کی ضرورت پیدا ہوتی رہے گی۔ حکومت کی جانب سے بے جا اخراجات کم کرنے کے دعوے تو بہت ہیں مگر آئے روز کوئی نہ کوئی پیش رفت ایسی ہو جاتی ہے جو یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ ہمارے اخراجات کے پاؤں وسائل کی چادر میں سمٹنے کو تیار نہیں۔اس بجٹ میں سپلیمنٹری گرانٹس ہی کو لیں جن میں 389 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو پی ڈی ایم حکومت‘ نگران حکومت اور موجودہ حکومت نے اپنے پہلے قریب چھ ماہ کرنے دوران خرچ کی۔ مجموعی طور پر یہ رقم 9374 ارب روپے بنتی ہے۔ حکومت کے ضروری اخراجات سے کوئی اختلاف نہیں ‘ محلِ نظر صرف وہ اخراجات ہیں جو ہمارے شاہانہ مزاجِ حکمرانی کی نشانی ہیں اور سال بسال بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال ایسے ملک میں‘ جہاں صحت اور تعلیم جیسے عوامی فلاحی اور قومی ترقی کے شعبوں کے اخراجات میں معمولی اضافہ کیا جاتا ہو‘ باعثِ استعجاب ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان اخراجات کے معاملے میں سخت پالیسی اپنائی جائے اور کفایت شعاری صرف بیانیے کی حد تک نہیں عملاً بھی نظر آنی چاہیے۔ حکومتی سطح پر یہ تبدیلی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے نقطہ نظر سے بھی ضروری ہے ۔ جب عوام کو بے حد مہنگی توانائی ‘ بہت مہنگی خوراک اور آمدنی کے وسائل میں کمی کا سامنا ہے تو حکومت کو اس صورتحال میں عوام کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ معاشی طور پر یہ حکمت عملی ملک کو اس روش پر ڈال سکتی ہے جس پر چلتے ہوئے پاکستان آنے والے وقت میں معاشی طور پر خودانحصاری کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔حکومتی سطح پر اخراجات کا ماڈل تبدیل کیے بغیر کوئی وجہ نہیں کہ قرض دہندگان سے رجوع نہ کرنا پڑے۔ اخراجات کو جوں کا توں چھوڑ دینا اور یہ سوچنا کہ معیشت سنبھل جائے‘ ایسا خیال ہے جس کے حقیقت بننے کا تصور محال ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں