اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

کڑے فیصلوں کی ضرورت

وزیراعظم شہباز شریف نے معاشی اہداف کے حصول کیلئے شفافیت اور خود احتسابی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ معیشت کی سمت درست کرنے کیلئے کڑے فیصلے اور اصلاحات کرنا ہوں گی‘ تمام وزارتوں کی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔ اگرچہ معاشی سمت کی درستی کیلئے اصلاحات اور کڑے فیصلوں کی اہمیت سے انکار نہیں مگر حکومت کے تمام فیصلوں کا بوجھ اب تک عوام ہی پر لادا گیا ہے‘ حالانکہ کڑے فیصلے وہی کہلا سکتے ہیں جن کا آغاز لیڈرشپ کی سطح سے ہو۔ اعلیٰ سطح پر ہنوز ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جا سکا جس سے یہ احساس اجاگر ہوتا ہو کہ حکومت اپنے عزم میں سنجیدہ ہے اور ملکی معیشت کو درست ڈگر پر گامزن کرنا چاہتی ہے۔ جب ایک جانب تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھایا جائے گا اور مزدوری کیلئے جانے والوں کے ہوائی سفر پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا اور دوسری جانب اراکینِ اسمبلی کے الائونس و مراعات اور ایوانِ صدر و وزیراعظم ہائوس کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا تو حکومتی سنجیدگی پر سوال اٹھنا فطری بات ہے۔ اخراجات کم کرنے کے حوالے سے حکومت کا عزم لائقِ تحسین ہے مگر یہ منزل محض دعووں اور اعلانات سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس طرح کے اعلانات ماضی کی لگ بھگ سبھی حکومتوں نے کیے اور اس کے باوجود صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آ سکی۔ ماضی میں متعدد بار کفایت شعاری اور ادارہ جاتی اصلاحات کی غرض سے کمیشن اور کمیٹیاں قائم کی گئیں مگر یہ کمیشن اور کمیٹیاں سرکاری اخراجات پر مزید بوجھ ہی ثابت ہوئے اور ان کی تجاویز پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آ سکی۔جون 2020ء میں حکومت نے سرکاری سطح پر سادگی کو فروغ دینے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس ٹاسک فورس نے متعدد سفارشات حکومت کو پیش کی تھیں مگر آج تک ان سفارشات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ 2022ء میں پی ڈی ایم حکومت نے بھی ایک کفایت شعاری کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے جنوری 2023ء میں اپنی سفارشات حکومت کو پیش کیں جن میں اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں 15 فیصد اور افسران کی تنخواہوں میں دس فیصد کمی کی سفارش سمیت متعدد ایسے اقدامات تجویز کیے گئے تھے جن سے سالانہ 500 ارب سے ایک ہزار ارب روپے تک بچت ہو سکتی تھی۔ بعد ازاں حکومت نے ان سفارشات پر عملدرآمد کیلئے ایک مانیٹرنگ کمیٹی بھی تشکیل دی مگر کفایت شعاری کمیٹی کی کسی ایک سفارش پر بھی عمل نہیں ہو سکا بلکہ الٹا حالیہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور اراکینِ اسمبلی کی مراعات میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ان حالات میں اگر حکومت عوام سے توقع رکھتی ہے کہ عوام مشکل وقت میں ایثار و قربانی کا مظاہرہ کریں تو چاہیے کہ حکومت خود بھی کچھ ایسا کرے کہ جس سے عوام کے ساتھ اس کی یکجہتی نظر آئے۔ابھی کل کی خبر ہے کہ مغربی افریقہ کے ملک لائبیریا کے صدر نے اپنی تنخواہ میں 40 فیصد تخفیف کر لی ہے‘ اسی طرح کینیا میں حکومت نے مشیروں کی تعداد آدھی اور 37 ریاستی ادارے ختم کر دیے ہیں جبکہ سرکاری سطح پر گاڑیوں کی خریداری اور ریاستی اہلکاروں کے غیر ضروری سفر پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ادھر ہمارے ہاں عوام اور اربابِ اختیار کے معیارِ زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہ فرق کم کرنے کی کوئی حقیقی کوشش نظر نہیں آتی۔ہماری سیاسی قیادت کو کڑے فیصلوں کی ہیئتِ ترکیبی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلے اسی صورت بہتر نتائج دے سکتے ہیں جب اوپر سے نیچے تک بلا امتیاز نافذ ہوں۔نہ کہ معاشی قربانیاں عوام دیں اور حکمران اور ریاستی اشرافیہ ان قربانیوں پر عیش کریں۔ جب عوام اربابِ اختیار کو بھی سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرتے ہوئے دیکھیں گے تو ان میں بھی قربانی اور ایثار کا جذبہ پیدا ہو گا۔ حکومت کو اپنی سنجیدگی اب اپنے عمل سے ظاہر کرنی چاہیے اور سب سے پہلے اپنی سطح پر اخراجات میں کمی کرنی چاہیے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں