معرکہ آرا فیصلہ!
سپریم کورٹ کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دینے کا فیصلہ معرکہ آرا ہے۔13 رکنی فل بینچ کا یہ فیصلہ جمہوریت کیلئے دوررس ثابت ہو گا اور ملکی سیاست اور پارلیمانی تاریخ میں تادیر یاد رکھا جائے گا۔ مخصوص نشستیں تفویض کرنے کا قاعدہ آئین کے آرٹیکل 51 میں وضع کردہ ہے‘ مگر موجودہ قضیے کا آغاز الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیے جانے اور اس کے نتیجے میں اسے انتخابی نشان سے محروم کرنے سے ہو ا۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو برقرار رکھا اور الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی جو تشریح کی اسکے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ لینے سے محروم کر دیا گیا۔ تاہم مخصوص نشستوں کے حالیہ مقدمے کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی غلط تشریح کی گئی‘ سپریم کورٹ کا منشا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کرنا نہیں تھا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اسے جمہوریت کیلئے قوت بخش قرار دیا ہے اور وفاقی حکومت نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے اور نظرِ ثانی کی اپیل دائر نہ کرنے کا اعلان کیا ہے‘ البتہ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ دیگر جماعتیں چاہیں تو نظرثانی کی اپیل دائر کرسکتی ہیں۔ فل بینچ کے تمام تیرہ جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ پر تنقید کی ہے ‘دورانِ سماعت بھی متعدد بار عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے الیکشن کمیشن کے اقدامات پر انگشت نمائی کی گئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں ملک کے جمہوری نظام کو جس قسم کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کی بہت حد تک ذمہ داری اسی ادارے پر عائد ہوتی ہے جو انتخابات کے انعقاد کا ذمہ دار تھا۔انتخابات کے حوالے سے نہ صرف اندرون ملک بے چینی ہے اور انتخابی ٹربیونلز میں جا بجا مقدمات درج ہیں بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اس پر انگلیاں اُٹھ رہی ہے ۔یہ صورتحال عالمی برادری میں پاکستان کے وقار کے منافی ہے اور اس کے مضمرات کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلیوں کی 55کے قریب نشستوں کے مستقبل پر چھائی دھند چھٹنے سے ایک طرف اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد مکمل ہو جائے گی اور دوسری جانب خیبر پختونخوا میں سینیٹ کی گیارہ نشستوں کے الیکشن میں حائل رکاوٹ بھی دور ہو گئی ہے۔ معطل نشستیں بحال ہونے سے اسمبلیوں کی کارکردگی میں بھی بہتری کی توقع ہے اور امید ہے کہ جمہوریت کی گاڑی ہموار انداز میں آگے بڑھ سکے گی۔ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو نمبر گیم ایک بار پھر تبدیل ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔ مخصوص نشستیں ملنے کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک انصاف سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن جائے گی۔اب سیاسی قیادت پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سطحی نوعیت کے جھگڑوںسے نکل کر ملک و قوم کے وسیع تر مفادات کی جانب توجہ دی جائے اور سیاسی درجہ حرارت کو نارمل کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں کسی کی جیت ہے تو وہ جمہوریت ہے اور اگر کسی کی ہار ہے تو وہ ادارہ جاتی نااہلی اور غلط فیصلہ سازی ہے جس نے ملک کے جمہوری سیٹ اَپ کو یہاں تک پہنچایا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے ملک کے جمہوری نظام کو تقویت پہنچائی ہے‘ جبکہ انتخابی عمل کے نقائص اور سیاسی اختلافات نے اس کیلئے شدید خطرات پیدا کر دیے تھے۔