اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بلوچستان‘ مسئلے کے پائیدار حل کی ضرورت

ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کوئی شبہ نہیں کہ یہ انہی ملک دشمن عناصر کا کام ہے جو سرحد پار سے پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث رہتے ہیں۔ گزشتہ روز افغانستان سے دراندازی کی کوشش کے دوران گرفتار ہونے والے دہشت گرد کے انکشافات نے اس مؤقف کی تائید کی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان پر حملہ آور گروہوں کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے اور وہاں پر دہشت گردوں کو تربیت دینے کے بعد پاکستان میں مختلف مقامات پر دہشت گردی کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ ملک کی مغربی سرحد میں دراندازی کے بہت سے پیچیدہ اور خفیہ راستے موجود ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرحدی علاقوں میں چھپے تخریب کار بلوچستان کو پاکستان کا کمزور پہلو بنانے کے ایجنڈے پر کاربند ہیں‘ مگر ان کا مذموم ایجنڈا اور اس کے پس پردہ مقاصد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ان کمزوریوں کا تدارک کرنے کے لیے سرحدی سکیورٹی کو مضبوط کرنے کے علاوہ افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے بھی دوٹوک بات چیت کرنا ہو گی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہے کہ دہشت گردوں کی کمک کا خاتمہ کیا جائے اور یہ افغانستان کی جانب سے اپنی ذمہ داریوں کے ادارک کے بغیر ممکن نہیں۔ داخلی سطح پر دیکھا جائے تو بلوچستان کو محض سکیورٹی کے مسئلے کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس کے مسائل ہمہ جہت ہیں جن کا حل بھی ہمہ جہت انداز ہی میں تلاش کرنا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مقامی قیادت‘ صوبائی حکومت اوروفاق سمیت کسی کو بھی بلوچستان کی پسماندگی اور امتیازی سلوک کے الزام سے بری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مگر یہ وقت اس بحث کا نہیں کہ بلوچستان کے مسائل میں کس کا کتنا کردار ہے۔ بحث برائے بحث اور ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے سے نہ بلوچستان کے عوام کی تکالیف میں کوئی کمی آ سکتی ہے اور نہ ہی صوبے میں استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ہر طبقے کو اپنی ذمہ داری کا بار اٹھانا ہو گا۔گزشتہ چند برس کے دوران متعدد بار ناراض بلوچوں کو منانے کے لیے کمیٹیاں بنانے کا اعلان کیا گیا اور موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان‘ سرفراز بگٹی نے صوبے کی قیادت سنبھالنے کے بعد جس اصلاحاتی ایجنڈے کا اعلان کیا تھااس میں بھی ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کا ٹاسک شامل تھا‘ مگر اس حوالے سے کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ضروری ہے کہ ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کا دوبارہ آغاز کیا جائے اور انہیں نتیجہ خیز بنایا جائے۔ اگرچہ ہتھیار اٹھا کر ریاست کے خلاف لڑنے والوں اور آئین کے منکروں کو معافی نہیں دی جا سکتی مگر انہیں ہتھیار ڈالنے کا آخری موقع ضرور دیا جا سکتا ہے۔ یہ امر بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ بلوچستان میں جمہوری عمل اور جمہوری ادارے عوامی توقعات پر پورے نہیں اترے جس کی وجہ سے صوبے کے عوام میں مایوسی پھیلی۔ غیر فعال سیاسی نظام کا خاتمہ اور جمہوری عمل میں عوام کی بھرپور شرکت مسئلے کے حل میں کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ امن و امان کو بحال کرنے اور بلوچستان کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے وفاق کو اپنے کردار سے بڑھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کی پسماندگی کا صوبے کے خراب امن وامان میں کلیدی کردار ہے۔ تعلیم ‘ شعور اور ہنر سے محروم افراد آسانی سے انتشارپسندوں کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔ اس انتہاپسندانہ ذہنیت کا مقابلہ علم وہنر کی ترویج اور روزگار کے مواقع کی فراہمی سے کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان کی بابت یہ بھی ضروری ہے کہ تمام پالیسیوں کی تشکیل میں بلوچ عوام اور عمائدین کو آن بورڈ لیا جائے۔ صوبے کے مسائل کا پائیدار حل اسی وقت نکل سکتا ہے جب اس میں متعلقہ صوبے کے سٹیک ہولڈرز کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں