بلوچستان: قیامِ امن کے لیے آزمودہ پالیسی

26 اگست کو ایک بار پھر بلوچستان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ شہر شہر دہشت گردی کے واقعات نے سارے صوبے کو لہو میں نہلا دیا۔ ان حملوں میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 54 افراد لقمۂ اجل بنے۔ سب سے ہولناک واقعہ یہ تھا کہ دہشت گردوں نے ناکہ لگاکر شناختی کارڈ چیک کیے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے 23 افراد کو بے دردی سے قتل کر ڈالا۔ بلوچستان کو پنجاب اور سندھ سے ملانے والے واحد ریلوے پل کو بولان کے مقام پر بم سے اڑا دیا گیا۔ ان انسانیت سوز ظالمانہ واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
جناب وزیراعظم جمعرات کے روز کوئٹہ پہنچے اور ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کیا۔ ہم سب جب کبھی بلوچستان کے مسئلے کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ ادھورا ہوتا ہے۔ جب تک ہمیں اس صوبے کے زمینی حقائق اور سماجی احوال کا علم نہیں ہو گا اس وقت تک ہم مسئلے کی حقیقی نوعیت کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی کافی و شافی علاج کر سکتے ہیں۔ میرے ایک افسر دوست نے گیس اور تیل تلاش کرنے والی ایک فرم کے ساتھ چیف سکیورٹی افسر کی حیثیت سے تین چار سال تک بلوچستان کے کئی مقامات پر کام کیا۔ انہوں نے لورا لائی‘ بولان‘ بارکھان‘ جھل مگسی اور سبی وغیرہ میں دور دور تک صحراؤں میں بہت وقت گزارا۔ ان علاقوں میں میرے دوست کو عام بلوچوں اور ان کے سرداروں سے ملاقاتوں اور وہاں کے حالات کا براہِ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے بتایا کہ عام بلوچ نہایت ملنسار اور خوش اخلاق ہوتا ہے۔ بلوچ آج بھی قبائلی نظام کے اندر زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اپنے سردار کی مرضی کے خلاف بالعموم کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ بلوچستان کے کل اضلاع کی تعداد 36 اور اس کی تحصیلیں 101 ہیں۔ ایک ضلع کی آبادی پنجاب کی ایک تحصیل سے بھی بہت کم ہوتی ہے۔ بستیاں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں کے عوام کی اکثریت غریب ہے جبکہ شرحِ خواندگی میں یہ صوبہ سب سے پیچھے ہے۔ مگر سالہا سال سے ان مسائل کا سنجیدگی سے کسی سطح پر بھی جائزہ نہیں لیا گیا کہ یہاں کے لوگوں کا اصل مسئلہ کیا ہے۔
پاکستان میں جو نیا وزیراعظم مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوتا ہے وہ بلوچستان کے بشری و معدنی وسائل کا ذکر پُرجوش انداز میں کرتا ہے اور اس صوبے کے لوگوں کی زندگیوں کو چاند تاروں سے سجانے کی خوشخبری سناتا ہے مگر عملاً کوئی قابلِ قدر کارکردگی سامنے نہیں آتی۔ سوچنے والی ایک بات یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں تین فوجی آپریشن ہوئے‘ ان میں سے ایک ایوب خان نے کیا‘ جو پختون تھے۔ دوسرا آپریشن ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا جو سندھی تھے اور تیسرا آپریشن جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا۔ 2006ء میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ایک ورکشاپ‘ کہ جس میں سیاستدان اور دانشور وغیرہ بھی شرکت کرتے ہیں‘ میں جنرل پرویز مشرف نے نواب اکبر بگٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تمہیں وہاں سے ہٹ کریں گے جہاں تمہارا گمان بھی نہیں جائے گا۔ پھر ایسے ہی ہوا کہ پہاڑوں کے غاروں میں چھپے ہوئے سابق گورنر بلوچستان کو نشانہ بنایا گیا۔ یہاں ان تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں کہ نواب صاحب کو کیوں نشانہ بنایا گیا‘ مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ غصہ بے چارے پنجابی مسافروں پر کیوں نکالا جاتا ہے۔
اس بات پر سب تاریخ نویسوں کا اتفاق ہے کہ جنرل ضیا الحق کے زمانۂ اقتدار میں بلوچستان خوشحالی اور امن و سلامتی کا گہوارہ بن گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے مقرر کردہ جنرل رحیم الدین 1978ء سے لے کر 1984ء تک چھ برس بلوچستان کے گورنر رہے۔ ان کے زمانے کو اس صوبے کا ایک سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔ گورنر رحیم الدین نے بیک وقت سہ نکاتی پروگرام پر عملدرآمد کیا۔ پہلے قدم کے طور پر انہوں نے لاء اینڈ آرڈر کو فول پروف کیا اور قانون کی عملداری کو یقینی بنایا۔ جنرل صاحب نے کوئی ملٹری آپریشن کیا نہ ہی کوئی ٹینک اور گن مین بلائے۔ بس ایک قاتل کو سارے قانونی تقاضے پورے کرکے بیچ چوراہے پھانسی پر لٹکا دیا۔ گورنر صاحب نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ سارے صوبے میں گڈ گورننس حقیقی معنوں میں قائم کر دی۔ عوام الناس کی فلاح بہبود اور ان کے لیے تعلیمی و طبی خدمات فراہم کرنے پر خطیر رقوم صرف کی گئیں۔ اس زمانے کا ریکارڈ گواہ ہے کہ وہاں ایک پیسے کی بھی کرپشن نہیں ہوئی۔ جنرل رحیم الدین کے زمانے میں ہر امیر غریب کو انصاف میسر تھا۔ میرٹ پر ہی تقرریاں ہوتی تھیں اور میرٹ پر کسی ادنیٰ کا کوئی کام رُکتا اور نہ کسی اعلیٰ کا۔ اس گڈ گورننس سے صوبے کے عوام بہت خوش تھے۔ گورنر صاحب نے تیسرا کام یہ کیا کہ سرداروں کا مکمل احترام ملحوظ خاطر رکھا۔ صوبے میں یہ چھ سال امن و امان اور حسنِ انتظام کے اعتبار سے مثالی سمجھے جاتے ہیں۔ان چھ سالوں میں بیگم ثاقبہ رحیم الدین نے علم وادب کا محاذ سنبھالے رکھا۔
محترم طارق کھوسہ صاحب سابق آئی جی بلوچستان ہیں۔ ان کا شمار ملک کے چند بہادر‘ فرض شناس اور قابل افسران میں ہوتا ہے۔ گورنر رحیم الدین کی گورنری کے زمانے میں انہوں نے تقریباً پانچ برس تک ایک پولیس افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ پہلے 1980ء کی دہائی میں ایس پی اور ایس ایس پی کے طور پر خدمات انجام دیں۔ پھر 2007ء میں بطور آئی جی بلوچستان کام کیا۔ یہ جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا۔ کھوسہ صاحب نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی دھماکا ہوتا تھا‘ تاہم جلد ہی جنرل رحیم الدین کے بارے میں یہ شہرت عام ہو گئی کہ وہ ایک سخت گیر اور دیانت دار منتظم ہیں‘ وہ سختی سے کام لیتے اور اس میں کوئی رو رعایت نہ کرتے تھے۔ وہ اس بات کا پورا پورا انتظام کرتے کہ سول بیورو کریسی اور پولیس کے افسران کو خالصتاً میرٹ پر لگایا جائے۔ کھوسہ صاحب نے بتایا کوئٹہ سمیت انہوں نے بلوچستان کے دیگر کئی شہروں میں پولیس افسر کی حیثیت سے بے دھڑک کام کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم عام جیپوں میں پھرتے اور کوئی ڈر خطرہ محسوس نہ کرتے تھے۔ اس زمانے کے سول اور پولیس افسران اس صوبے میں قیامِ امن اور خدمتِ عوام کو باعث فخر سمجھتے تھے۔
کھوسہ صاحب نے بتایا کہ میں نے اپنی چھ سات سالہ خدمات کے دوران جو نہایت اہم سبق سیکھا وہ یہ تھا کہ بلوچ کو عزت دو اور پختون پر سچا اعتماد کرو تو وہ کبھی آپ کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپیں گے۔ کھوسہ صاحب نے یہ سبق اسلام آباد اور راولپنڈی کے مراکزِ اقتدار تک پہنچا دیا تھا۔ آئی جی کھوسہ صاحب کی باتوں کا قدرے تفصیل سے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عملی طور پر ثابت شدہ دانائی زبانی دعووں اور دھمکیوں سے کہیں بڑھ کر قابلِ اعتماد ہوتی ہے۔
جناب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بلوچستان میں اجلاس کے بعد نہایت مناسب بیان دیا ہے کہ ملک دشمنوں سے رعایت نہیں کی جائے گی اور آئین پسندوں سے مذاکرات ضرور ہونے چاہئیں۔ حکومت اور ریاست مہ رنگ بلوچ اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے پُرامن بلوچ قائدین کے مطالبات اور خاص طور پر مسنگ پرسنز کے حوالے سے ان کے تحفظات پر توجہ دیں اور ان کے سروں پر دستِ شفقت رکھیں۔ ہماری درخواست یہ بھی ہو گی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں جنرل رحیم الدین مرحوم و مغفور کی قیام امن کے لیے آزمودہ سہ نکاتی پالیسی پورے اخلاص سے بروئے کار لائیں۔ اعلیٰ میرٹ والے سول اور پولیس افسران کو مکمل اختیارات کے ساتھ ذمہ داری سونپیں۔ نیز گڈ گورننس کو چھوٹے اور بڑے شہروں میں رواج دیں پھر دیکھیں صوبے میں امن قائم ہوتا ہے یا نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں