مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر‘ جو قدرتی حُسن کے بہت دلدادہ تھے‘ سے کسی نے پوچھا کہ ہندوستان کا سب سے اچھا موسم کون سا ہے؟ جواب دیا: ساون بھادوں۔ پھر سوال کیا گیا کہ سب سے بُرا موسم؟ کہا: ساون بھادوں۔ دونوں جواب درست ہیں کیونکہ برسات کے ان دو مہینوں میں اگر شرق سے آنے والی ہلکی ہلکی پُرے کی ہوا (پون) کے ساتھ کالے کالے بادلوں کی گھٹا کھل کر برسے تو اس سے زیادہ خوبصورت اور خوشگوار کوئی اور موسم نہیں ہو سکتا۔ ایسے مواقع پر پرانی ہندی فلم ''رتن‘‘ کا مدھوک کا لکھا ہوا‘ نوشاد کی موسیقی میں زہرہ بائی انبالے والی کی مدھ بھر آواز میں یہ گانا ''رم جھم برسے بادروا‘ مست ہوائیں آئیں‘‘ لب پر آئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کہتے ہیں کہ آریائی جب ہندوستان آئے تو جیٹھ‘ اساڑھ (وسط مئی سے وسط جولائی) کی خشک اور قیامت خیز گرمی سے بہت گھبرائے کیونکہ وہ ٹھنڈے علاقوں سے آئے تھے‘ مگر جب ساون کا آغاز ہوا اور مشرق سے آنے والی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں کے ساتھ ہی بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرج کے ساتھ موسلادھار بارش سے جل تھل ایک ہوگیا‘ مرجھائے ہوئے پودوں میں جان پڑ گئی اور درختوں کے پتوں پر نکھار آگیا اور اس کے ساتھ ہی خوشی سے ہر طرف چوپایوں کے بھاگنے اور پرندوں کی سریلی آوازیں آنے لگیں‘ تو موسم میں اچانک خوشگوار تغیر کا اتنا اثر ہوا کہ وہ خوشی سے رقص کرنے لگے اور دیوتاؤں کی تعریف میں بھجن گانے لگے۔ تب سے رقص اور موسیقی نہ صرف ہندی کلچر بلکہ مذہب کا حصہ بھی شمار ہونے لگی۔ اس کے برعکس اگر ان دو مہینوں خاص طور پر بھادوں‘ جو بکرمی کیلنڈر کا پانچواں مہینہ ہے‘ کے دوران ہوا رُک جائے تو ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جسے کسی شاعر نے یوں بیان کیا ہے کہ وہ حبس ہے کہ لُو کی دُعا مانگتے ہیں لوگ۔
برسات کے مہینوں میں ساون اور بھادوں (وسط جولائی سے وسط ستمبر تک) دونوں کا شمار ہوتا ہے۔ مگر ہماری شاعری‘ لوک گانوں اور رومانس میں ساون کا زیادہ ذکر کیا جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بارشوں اور ٹھنڈی ہواؤں کا یہ مہینہ جیٹھ اور اساڑھ کی قیامت خیز گرمی اور جھلسا دینے والی لُو کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس لیے جنوبی ایشیا کے شمالی اور وسطی حصوں کے تپتے میدانوں کے باسی اس مہینے کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ ساون کی پہلی بارش پر خوشی کے اظہار کیلئے قسم قسم کے پکوان تیار کیے جاتے تھے۔ اسے ایک تہوار کی شکل میں منایا جاتا تھا۔ اگرچہ اب یہ رسمیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے شہری تعمیرات اور نکاسی ٔ آب کی پروا کیے بغیر ہاؤسنگ کالونیز کے قیام کے بعد اب ساون بھادوں کو صرف اربن فلڈنگ کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ملک میں نجی ٹی وی چینلز کا وجود نہیں تھا‘ صرف پی ٹی وی تھا۔ اس کے رات 9 بجے کے خبرنامے کو لوگ بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ الیکٹرانک میڈیا میں خبروں اور اطلاعات کا یہی واحد ذریعہ تھا۔ مگر خبرنامے کے آخر میں ''موسم کا حال‘‘ لوگوں کیلئے خاص دلچسپی کا باعث ہوا کرتا تھا۔ بالخصوص جب موسم گرما کی سختی لوگوں کو جلد بارشوں کیلئے دعائیں مانگنے پر مجبور کر دیتی تھی۔ موسم کے حال پر اس پروگرام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں بارش برسانے والی ہواؤں کا رُخ اور متوقع آمد کے بارے میں سکرین ڈسپلے کے ذریعے ناظرین کو آگاہ کیا جاتا تھا۔ خاص طور پر جون کے آخری حصے میں مون سون سسٹم کی تشکیل اور ہمالیہ کے ساتھ ساتھ شمال مغرب کی طرف اس کی حرکت‘ رفتار اور بارش کے امکان کے متعلق بالکل اسی طرح بتایا جاتا تھا جسے آج کل BBC‘ CNN اور الجزیرہ نیٹ ورکس پر ہر دس منٹ بعد ہواؤں کے رُخ اور بادلوں کی موجودگی کو دکھایا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں اب جدید پروگرام بہت مختصر اور بے جان ہو چکا ہے۔ نجی ٹی وی چینلز کے نزدیک موسم کے حال کا مطلب اکثر ساون کی گھٹاؤں‘ تیز اور موسلادھار بارشوں سے لیا جاتا ہے مگر بھادوں کے دوران برسنے والی بارشوں کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ساون سال کے دو گرم ترین مہینوں جیٹھ اور اساڑھ کے بعد آتا ہے۔ ان دونوں مہینوں میں صرف انسان‘ چرند پرند اور پودے ہی بارش کی خاطر آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر نہیں دیکھتے بلکہ تپتی ہوئی دھرتی بھی پانی کی ایک ایک بوند کو ترستی ہے۔ ساون کی کالی گھٹائیں اور ٹھنڈی ہوائیں زور دار اور موسلادھار بارشوں کی صورت میں فطرت کی طرف سے گرمی اور تپش میں جھلسی ہوئی خدا کی اس مخلوق کی طرف سے التجا کا جواب ہے۔ قدرت کی طرف سے ساون کے دوران زور دار اور بھرپور بارش کا اہتمام اس لیے ضروری ہے کیونکہ تپتی ہوئی دھرتی کو ٹھنڈا کرنا مقصود ہے۔ ساون کے مقابلے میں بھادوں کے دوران بارشوں کا پیٹرن مختلف ہوتا ہے کیونکہ بھادوں میں بارشیں ساون کے مقابلے میں قدرے طویل وقفوں سے ہوتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دھرتی کی پیاس بہت حد تک ساون کی بارشوں سے بجھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساون کے مقابلے میں بھادوں کی بارشوں‘ جو کبھی کبھی شدید صورت بھی اختیار کرلیتی ہیں‘ سے سیلاب زیادہ آتے ہیں کیونکہ زمین میں پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے ‘لیکن ساون کی طرح بھادوں کا بھی ایک اہم رومانوی پہلو ہے جس کا ذکر رومانوی گانوں اور فطرتی شاعری میں ہوتا ہے۔ ''یاد پیا کی آنے لگی بھیگی بھیگی راتوں میں‘‘ جیسے اظہارِ جذبات کا تعلق بھادوں کی شاموں ہی سے ہے‘ جب ہوا میں کمی کی مقدار ساون جیسی لیکن ٹھنڈ اس سے زیادہ ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں بھادوں کی شامیں رومانوی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ ہندوؤں کے نزدیک بھادوں کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے کیونکہ اس مہینے کے دوران اُن کے کئی اہم مذہبی اور ثقافتی تہوار ہیں جن میں کرشن‘ رادھا اور گنیش کے ایام پیدائش بھی شامل ہیں۔ میرے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی ہے جس میں بھادوں کو 11 بھائیوں (بکرمی کیلنڈر کے باقی مہینوں) کی اکلوتی بہن قرار دیا گیا ہے۔ بہن اور پھر اکلوتی ہونے کے ناتے بھادوں کی بھی باقی سال کے تمام مہینوں کے مقابلے میں عجیب و غریب اور جدا خصوصیات ہیں۔ مثلاً بھادوں میں درجہ حرارت گر جاتا ہے مگر ہوا میں نمی کی سطح بڑھ جاتی ہے اور اس کی وجہ سے پسینہ زیادہ آتا ہے۔ پسینہ زیادہ آنے کو صحت کی نشانی بھی سمجھا جاتا ہے۔ قدیم سنیاسی طریقہ علاج کے مطابق گھٹنوں کے درد یا اعصابی کمزوری اور عورتوں کو لاحق ہسٹریا کے مرض کا علاج بھی بھادوں کے مہینے میں مریض کو پسینے میں شرابور کر کے کیا جاتا تھا۔ مون سون کی سالانہ بارشوں کا بیشتر کوٹہ ساون میں پورا ہو جاتا ہے مگر ان کا اثر اُجلے‘ ہرے بھرے پتوں کی صورت میں بھادوں کے مہینے میں ظاہر ہوتا ہے۔ ساون کی بارشیں تپتی ہوئی دھرتی کو ٹھنڈا کرنے اور اس کی پیاس بجھانے کا کام کرتی ہیں۔ مگر بھادوں کی بارشیں کسان کیلئے بہت اہم ہیں کیونکہ خریف کی فصل کی کاشت کیلئے درکار نمی انہی بارشوں سے حاصل ہوتی ہیں۔ اگست کے مہینے کے اختتام پر بھادوں کا اگلا نصف حصہ شروع ہوتا ہے۔ ان دو ہفتوں کے دوران موسم بھادوں اور اگلے مہینے یعنی اسوج کی ملی جلی خصوصیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسوج اور اس سے اگلے مہینے ‘کاتک (وسط ستمبر سے وسط نومبر تک) کے دوران شامیں ٹھنڈی مگر دن کو تیز اور چبھتی ہوئی دھوپ ہوتی ہے‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ''اسوج‘کاتک ماہ نرالے‘ دِنے دُھپاں تے راتیں پالے‘‘۔ یعنی اسوج اور کاتک نرالے مہینے ہیں‘ دن کو تیز دھوپ ہوتی ہے جبکہ رات کو سردی محسوس ہوتی ہے‘‘۔ بہت عرصہ پہلے جب سکول میں پڑھتے تھے تو ایک چھوٹا سا کتابچہ ''بارہ ماہ‘‘ غالباً قادر یار کا تصنیف کیا ہوا جس میں بکرمی سال کے ہر مہینے کی ثقافتی اہمیت‘ قدرتی حُسن کا ایک بڑے خوبصورت اور رومانی انداز میں ذکر کیا گیاہے‘ ہاتھ لگا۔ بڑی کوشش کی ہے کہ دوبارہ ہاتھ لگے۔ اگر کوئی صاحب اس سلسلے میں مدد کر سکیں تو بہت شکرگزار ہوں گا۔