نیب ترامیم‘ اثرات اور توقعات
سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت اور دیگر متاثرین کی انٹرا کورٹ اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس میں نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو (سیکنڈ امینڈمنٹ) ایکٹ 2022ء کے تحت کی گئی ترامیم کو بحال کر دیا ہے۔ 15 ستمبر2023ء کو جسٹس عمر عطا بندیا ل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ان ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اپیل پر فیصلہ سنایا تھا جس میں پی ڈی ایم کی حکومت کی جانب سے کی گئی ترامیم میں سے اکثر کو آئین کے منافی قرار دے کر کالعدم قرار دیا تھا۔پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب آرڈیننس میں جو 27 ترامیم کی گئیں ان سے نیب کے دائرہ اختیار اور دیگر معاملات پر فیصلہ کن اثر ات مرتب ہوئے۔مثال کے طور پر نیب کو شکایت پر چھ ماہ کے اندر تفتیش شروع کرنے اور گرفتار کیے گئے شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر احتساب عدالت کے سامنے پیش کرنا ضروری قرار پایا۔ نیب کو ملزم کو 90 دن کے ریمانڈ پر رکھنے کی طاقت سے بھی محروم کر دیا گیا اور یہ مدت پہلے 14 دن کی گئی جو کہ بعد میں ایک اور ترمیم کے ذریعے 40 روز کر دی گئی۔ نیب کے اہلکاروں پر پابندی عائد کی گئی کہ وہ ریفرنس داخل کرنے اور تفتیش کے دوران بیان بازی نہیں کریں گے۔ خلاف ورزی کی صورت میں انہیں ایک سال تک کی قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جھوٹی رپورٹ جمع کرانے پر بھی سزا تجویز کی گئی جو پانچ سال تک کی قید ہوسکتی ہے۔ نیب ترمیمی بل 2022ء کے مطابق نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر ے گا‘ نیز ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کر سکے۔نیب آرڈیننس میں اگرچہ کئی ترامیم ایسی بھی ہیں جن سے وفاقی حکومت نے احتساب ادارے پر اپنی اتھارٹی کو بڑھایا ہے جیسا کہ نیب چیئرمین کی تقرری کاا ختیار صدرِ مملکت سے وفاقی حکومت کو منتقل کرنا اور چیئرمین نیب کی تقرری کے معاملے میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان کسی نام پر اتفاق نہ ہو تو معاملہ قومی اسمبلی کے سپیکر کی طرف سے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کرناجو ایک مہینے کے اندر حتمی اعلان کرے گی۔ بہرکیف ان ترامیم میں ایسی کئی چیزیں موجود ہیں جن کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان ترامیم میں ملزم کے حقوق کا احترام کیا گیا ہے۔مگر اہم سوال یہ ہے کہ ان ترامیم سے نیب کی کارکردگی میں کیا تبدیلی آئے گی؟نیب کا ماضی ظاہر و باہر ہے کہ یہ ادارہ اپنے مینڈیٹ اور اختیارات سے تجاوز کا مرتکب رہا ہے۔ نیب کی لاٹھی ہمیشہ حزبِ اختلاف کے خلاف کام آئی ہے۔ یوں احتساب اور شفافیت کے بجائے یہ ادارہ کسی اور ہی مقصد کو پورا کرنے میں آلہ کار بنا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نیب کی تاریخ میں ایسے مقدمات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں جو نتیجہ خیز ثابت ہوئے ہوں۔ سیاستدانوں کے خلاف بنائے گئے زیادہ تر مقدمات بانجھ ثابت ہوئے۔ مقدمات کے ہوائی قلعے بڑے زور وشور سے بنائے جاتے رہے مگر عدالتوں میں مقدمات کو ثابت نہیں کیا جا سکا‘ یہی وجہ ہے کہ نیب کے نامہ اعمال سے اگر سیاسی مقدمہ بازی کو نکال دیا جائے تو باقی کچھ بھی نہیں بچتا۔شفافیت کی غرض سے قوانین بنائے گئے ‘ ادارے قائم ہوئے مگر بدعنوانی میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا۔ 2012ء میں بدعنوانی کا درجہ 27 تھاجبکہ 2023ء میں 29 ۔ اس دوران 2017-18 ء میں اگرچہ بدعنوانی کا درجہ بہتر ہو کر 32‘ 33 تک بھی گیا مگر پھر بھی یہ خاصا بلند ہے۔ نیب آرڈیننس میں متعارف کرائی گئی یہ ترامیم‘ جنہیں سپریم کورٹ کی توثیق بھی حاصل ہو چکی ہے‘ نیب کی کارکردگی پر کیا اثرات مرتب کریں گی؟ یہ احتساب اور شفافیت یقینی بنانے کیلئے کوئی مؤثر کردار ادا کر سکیں گی؟ یہ سوالات آنے والے وقت کیلئے اہم ہوں گے۔