"RS" (space) message & send to 7575

تین بڑوں کی ملاقات

معاشی بحالی‘ سکیورٹی چیلنجز اور سیاسی عدم استحکام ملک کے دیرینہ مسائل ہیں۔ اگر ہم زیادہ دور نہ جائیں اور صرف 2008ء سے لے کر موجودہ حکومت تک کے جمہوری ادوار کا سرسری جائزہ لیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ گزشتہ سولہ برسوں میں مختلف حکومتیں ان دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اگرچہ ہر حکومت کے پاس اپنے دفاع میں جواب موجود ہو گا‘ تاہم زمینی حقائق سے انکار ممکن نہیں۔ ان سولہ برسوں میں پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف‘ تینوں حکومت کر چکی ہیں‘ ہر سیاسی جماعت نے اپنے منشور اور وژن کے مطابق کوشش ضرور کی مگر وہ اپنے طے کردہ اہداف میں کس قدر کامیاب ہوئی‘ اس موضوع پر کبھی بحث نہیں ہوتی۔ نہ سیاسی جماعتیں یہ بتانا گوارا کرتی ہیں اور نہ ہی ووٹرز اپنے نمائندوں سے استفسار کرتے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں سے موازنہ اور کچھ شعبوں میں بہتری پیش کرکے عوام کو مطمئن کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران کوئی یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کرتا کہ ان وعدوں کا کیا ہوا جو حکومت نے عوام سے کیے تھے؟ ان اہداف میں کتنی کامیابی حاصل ہوئی جو آپ نے خود اپنے لیے مقرر کیے تھے؟ اگر کوئی حکومت اپنے طے کردہ ہدف کا 50 فیصد بھی حاصل نہیں کر سکی تو کیا یہ اس کی ناکامی نہیں؟ اگر کوئی حکومت اپنے اعلان کردہ منصوبوں کو اپنے دور میں شروع ہی نہیں کر سکی تو کیا یہ اس کی ناکامی نہیں؟ خان صاحب نے عوام کو 50 لاکھ گھر دینے کا اعلان کیا مگر ان کے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں بمشکل چند ہزار گھر بن سکے۔ پی ٹی آئی اپنے طے کردہ ہدف کا ایک فیصد بھی ڈِلیور نہ کر سکی۔
اہداف کے حصول میں دوسری سیاسی جماعتوں کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں۔ پاکستان اگر خطے کے دیگر ممالک سے ترقی میں پیچھے ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ملکی ترقی کا کوئی طویل مدتی منصوبہ بن سکا اور نہ ہی کسی حکومت نے پہلے سے موجود منصوبوں کو جاری رکھا۔ جیسے سعودی عرب میں وژن 2030ء کے تحت ترقی کا سفر جاری ہے۔ ملک کے اندر ایک ایک اینٹ وژن 2030ء کے مطابق لگائی جا رہی ہے‘ کئی منصوبے ایسے ہیں جن کی تکمیل کی مقررہ مدت سے پہلے ہی انہیں مکمل کر لیا گیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں سمت کا کوئی تعین ہی نہیں ہے‘ جو حکومت آتی ہے وہ اپنے وژن کے مطابق کام شروع کر دیتی ہے‘ کسی حکومت میں کچھ بہتر کام ہو گیا‘ کوئی حکومت سیاسی بکھیڑوں میں اُلجھی رہی۔ حکومت قائم ہوئے ابھی چند ماہ کا عرصہ بھی نہیں گزرا کہ ہارنے والی جماعتیں متحد ہو کر حکومت گرانے کی منصوبہ بندی کرنے لگتی ہیں۔ یوں جس حکومت نے اپنے طے کردہ اہداف کے حصول کیلئے کوشش کرنی ہوتی ہے‘ اسے اپنے بچاؤ کے لالے پڑ جاتے ہیں اور سیاسی عدم استحکام کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ پچھلے تین ادوار سے یہی کہانی دہرائی جا رہی ہے‘ جسے اب ختم ہونا چاہیے۔
ملک کے تین بڑے رہنماؤں کی ملاقات سے اگر ملک کے دیرینہ مسائل حل ہوجاتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ پھر میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان کی ملاقات میں رکاوٹ کیا ہے؟ پہلے مرحلے میں یہ ملاقات ہو جانی چاہیے کیونکہ ملکی سلامتی اور ملکی مفاد سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ میاں نواز شریف سب کچھ بھول کر آگے بڑھنے کا اشارہ دے چکے ہیں‘ وزیراعظم شہباز شریف نے چند روز قبل کہا تھا کہ خان صاحب کے ساتھ بامقصد مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ آصف علی زرداری مفاہمت کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں اس لیے انہیں بھی ملاقات میں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ خان صاحب کا بھی کہنا ہے کہ وہ ملکی مفاد کی خاطر بیٹھنے پر آمادہ ہیں‘ حالانکہ کچھ عرصہ پہلے تک وہ ان دونوں بڑی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہ تھے۔ تین بڑوں کی ملاقات ملکی مفاد کیلئے جس قدر اہم ہے‘اس ملاقات کی اس سے کہیں زیادہ ضرورت خود سیاسی رہنماؤں کو ہے کیونکہ آگے بڑھنے کیلئے سیاسی تناؤ کا ختم ہونا بہت ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہونے کے باوجود اگر یہ ملاقات ملکی سلامتی کو سامنے رکھ کر ہوتی ہے تو اس میں سب کا وقار اور بھرم قائم رہے گا۔ عوام بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ قوی امکان ہے کہ تینوں بڑے جب مل بیٹھیں گے تو اس صورتحال سے نکلنے کا سیاسی حل تلاش کر لیں گے۔ماضی میں میاں صاحب اور زرداری صاحب ایک سے زائد بار باہمی اتحاد سے عملی طور پر یہ ثابت کر چکے ہیں۔ اگست 2014ء میں جب خان صاحب ہزاروں کارکنوں کے ساتھ شہرِ اقتدار میں موجود تھے اور انہیں مقتدرہ کی حمایت بھی حاصل تھی‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایک ماہ کے اندر نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں تو اُس وقت آصف علی زرداری نے جاتی امرا میں میاں صاحب سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد صحافیوں نے اُن سے سوال کیا کہ ملاقات میں کیا طے ہوا ہے تو زرداری صاحب کا مختصر جواب تھا کہ انہوں نے میاں صاحب کو کہا ہے کہ صبر سے کام لیں اور اس مسئلے کا سیاسی حل نکالیں۔ زرداری صاحب نے اس ملاقات میں درحقیقت میاں صاحب کو یقین دہانی کرا ئی تھی کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہے۔ ایسا ہی تعاون میاں صاحب اس سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ کر چکے تھے جب مسلم لیگ (ن) کو فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے دیے گئے لیکن دراصل یہ میثاقِ جمہوریت کی کمٹمنٹ تھی جسے مشکل وقت میں دو بڑی پارٹی کے رہنماؤں نے بخوبی نبھایا۔ لہٰذا اب بھی سیاسی بڑوں کی ملاقات میں تو کوئی دو رائے نہیں‘ البتہ سوال یہ ہے کہ خان صاحب مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کیلئے آمادہ ہوں گے؟
اگر خان صاحب مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ ہیں تو آغاز بھی انہیں ہی کرنا ہو گا‘ اس لیے کہ خان صاحب نے پچھلے کئی برسوں سے مزاحمتی رویہ اپنایا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کی باقی قیادت اور کارکن بھی سخت گیر رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں مگر خان صاحب کا مصلحت سے لبریز ایک بیان اس تاثر کو ختم کر سکتا ہے۔ حالات جس نہج تک پہنچ چکے ہیں اس کا تقاضا یہی ہے کہ خان صاحب اب مفاہمت کی بات کریں اور جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کا اعتراف بھی کریں کیونکہ مقتدرہ اور حکومتی رہنما واضح اشارہ دے چکے ہیں کہ غلطی تسلیم کر لینے کی صورت میں ہی معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں۔ خان صاحب لہجے کی تلخی کم کر سکتے ہیں‘ مفاہمانہ رویہ بھی اپنا سکتے ہیں لیکن کیا وہ اپنی غلطیاں بھی تسلیم کریں گے؟ جب تک غلطی تسلیم کرنے والی گرہ نہیں کھلتی ہے‘ معاملات کا آگے بڑھنا مشکل ہو گا۔
رہی یہ بات کہ تین بڑوں کی ملاقات کیسے ہو گی‘ تو پاکستان کے موجودہ سکیورٹی‘ سیاسی اور معاشی حالات تینوں بڑوں کو مل بیٹھنے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ کُرم میں جاری کشیدگی کوششوں کے باوجود ختم نہیں ہو پائی ‘ گرینڈ امن جرگہ تاحال کُرم مسئلے کا نتیجہ خیز حل نکالنے سے قاصر ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر اسلحے سے زیادہ آگ لگانے کا سامان موجود ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا مسلسل دہشت گردی کا شکار ہیں‘ اگرچہ معاشی چیلنجز کم ہوئے ہیں لیکن عوام کو کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا ہے۔ ان مسائل کو ایجنڈا بنا کر تینوں بڑے بیٹھ سکتے ہیں۔ میثاقِ معیشت سیاسی جماعتوں کو جوڑ سکتا ہے‘ جو پچھلے 77 برسوں میں نہ ہو سکا وہ اب ہونا چاہیے۔ سیاسی اتفاقِ رائے سے سمت کا تعین ضروری ہے۔ میثاقِ معیشت میں طے کر لیا جائے کہ جس جماعت کی حکومت ہو وہ طے کردہ معاشی وژن کے مطابق چلے گی‘ جاری منصوبوں کو پس پشت نہیں ڈالا جائے گا۔ تین بڑوں کی ملاقات اگر ملک کے اہم مسائل کو مدنظر رکھ کر ہوتی ہے تو ملک و قوم کیلئے مفید ہو گی لیکن اگر سیاسی بندوبست کیا گیا تو دیرینہ مسائل بھی موجود رہیں گے اور سیاسی بحران بھی کچھ عرصے کے بعد دوبارہ سر اٹھا لے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں