صحابہ کرامؓ نے تاریخ انسانی میں جو کارنامے رقم کیے ہیں وہ آج تک بے مثال ہیں۔ شانِ صحابہ کرامؓ درج ذیل واقعات سے معلوم کی جا سکتی ہے۔
حضرت سعدؓ بن ربیع قبیلہ خزرج کے سرداروں میں سے تھے۔ بڑے مالدار اورفیاض تھے۔ انہیں آنحضورﷺ سے بے پناہ محبت تھی۔ حضرت سعدؓ نے غزوہ بدر میں حصہ لیا تھا اور غزوہ احد میں بھی دادِ شجاعت دی تھی۔ انہوں نے دشمن کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا اور بالآخر زخموں کی تاب نہ لاکر گر پڑے۔ حضور اکرمﷺ کو بھی ان سے یک گونہ محبت اور تعلق خاطر تھا۔ جنگ کے بعد آپﷺ نے پوچھا ''کون ہے جو سعد بن ربیع کی خبر لائے‘‘۔ حضرت اُبیّ بن کعبؓ نے عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺ! میں معلوم کر کے آتا ہوں‘‘۔ انہوں نے لاشوں کے درمیان بہت تلاش کیا‘ مگر سعد نظر نہ آئے۔ کئی مرتبہ ان کا نام لے کر بھی پکارا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ آخر انہوں نے بلند آواز سے کہا: ''سعد اگر تم زندہ ہو تو مجھے جواب دو‘ مجھے رسول اللہﷺ نے تمہارا حال معلوم کرنے کے لیے بھیجا ہے‘‘۔ اس وقت حضرت سعدؓ کی جاں لبوں پر تھی۔رسول اللہﷺ کا اسم گرامی سنا تو اپنی ساری قوت مجتمع کر کے نحیف سی آواز میں جواب دیا: ''رسول پاکﷺ کی خدمت میں میرا سلام عرض کر دینا اور انصار سے کہہ دینا کہ اگر آج خدانخواستہ رسول اللہ شہید ہوگئے اور تم میں سے کوئی ایک شخص بھی زندہ رہا تو اللہ کو کیا منہ دکھائو گے؟ اس کے سامنے تمہاری کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ یاد کرو ہم نے بیعت عقبہ میں اللہ کے رسول کے ساتھ عہدِ وفا باندھا تھا اور حلف اٹھایا تھا کہ ان پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے‘‘۔ اس شہیدِ وفا کے یہ آخری الفاظ تھے۔ اس کے بعد روح نفس ِمطمٔنہ کی صورت میں جسدِ خاکی سے پرواز کر گئی۔ حضرت اُبیّ بن کعبؓ نے آنحضورﷺ کی خدمت میں حضرت سعدؓ کی یہ گفتگو عرض کی تو آپﷺ نے فرمایا: ''اللہ سعد پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائے‘ زندگی اور موت‘ ہر حال میں اس نے اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کا حق ادا کیا ہے‘‘۔
جنگ احد کے بعد ایک مرتبہ ایک صحابی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ اس وقت لیٹے ہوئے تھے اور ان کے سینے پر ایک ننھی سی بچی کھیل رہی تھی۔ وہ اس سے بہت پیار کر رہے تھے اور شفقت سے اسے بار بار چومتے تھے۔ اس صحابی نے حضرت ابوبکرؓ سے پوچھا: ''ابوبکر! یہ بچی کون ہے؟‘‘ جواب میں فرمایا: ''یہ اس شخص کی بیٹی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بہت عظیم مقام عطا کیا ہے‘ اس نے اللہ کے رسول پر اپنی جان قربان کر دی اور روزِ محشر کو وہ آپﷺ کے نقیبوں میں شمار ہو گا‘‘۔ یہ تھا حضرت سعدؓ بن ربیع کا مقامِ رفیع۔ ایک مرتبہ خلیفۃ الرسول کی خدمت میں حضرت سعدؓ کی ایک اور بیٹی حاضر ہوئی۔ جناب صدیق اکبرؓ نے ان کی بڑی عزت وتکریم کی اور ان کے لیے اپنی چادر بچھا دی۔ حضرت عمرؓ نے دریافت کیا: خلیفۃ الرسول یہ بی بی کون ہے؟ آپؓ نے فرمایا: ''اے عمر یہ اس شخص کی بیٹی ہے جو مجھ سے اور تجھ سے بہتر تھا۔ یہ سعد بن ربیع کی لخت جگر ہے جس نے آنحضورﷺ کی زندگی میں جنت الفردوس حاصل کر لی اور ہم تم ابھی تک اس کے منتظر ہیں‘‘۔
حبِ الٰہی کے متوالے اور شمعِ رسالت کے پروانے تاریخ انسانی میں ایسے عظیم الشان سنگ ہائے میل نصب کر گئے ہیں جو بھٹکے ہوئے قافلوں کو منزل کا پتا دیتے ہیں۔ شہدائے اُحد کی فہرست میں سیدنا عمروؓ بن جموح کا نام نامی بھی جگمگا رہا ہے۔ یہ قبیلہ خزرج کی شاخ بنو سلمہ کے سردار تھے۔ جنگ احد سے پہلے انہوں نے جہاد میں شریک ہونے کا ارادہ فرمایا مگر ان کے بیٹوں نے انہیں جنگ پر جانے سے منع کیا۔ ان کے چار جوان بیٹے سامانِ جہاد تیار کر چکے تھے۔ چونکہ حضرت عمروؓ بن جموح اس وقت بوڑھے بھی تھے اور ان کے ایک پائوں میں شدید قسم کا لنگڑا پن بھی تھا‘ اس لیے ان کے بیٹوں نے ان سے کہا: ''ابا جان آپ گھر پر رہیں‘ ہم آپ کی طرف سے جہاد میں حصہ لیں گے۔ آپ تو ویسے بھی معذور ہیں‘ آپ پر جہاد فرض نہیں‘‘۔ انہوں نے فرمایا: ''نہیں‘ میں تو ضرور جہاد پر جائوں گا‘ میں نے تو قسم کھا لی ہے‘‘۔
بالآخر معاملہ آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ حضرت عمروؓ بن جموح نے عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺ! میرے بیٹے مجھے جہاد پر جانے سے روکتے ہیں‘ خدا کی قسم! مجھے امید ہے کہ جس طرح لنگڑاتا ہو ا چل کر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا ہوں‘ اسی طرح میں اپنی اسی ٹانگ کے ساتھ جنت میں پہنچ جائوں گا‘‘۔ انہوں نے اپنا کیس ایسی دردمندی سے پیش کیا کہ آنحضورﷺ نے انہیں جہاد میں شرکت کی اجازت دے دی۔ وہ خوشی خوشی اپنے گھر لوٹے‘ اپنا سامانِ حرب لیا اور دروازے کی دہلیز پر قبلہ رخ ہو کر اللہ سے دعا مانگی: (ترجمہ) ''اے اللہ! مجھ کو اپنے راستے میں شہادت عطا فرمانا اور مجھے ناکام کر کے اپنے اہل و عیال کے پاس نہ بھیجنا‘‘۔
حضرت عمروؓ اپنے بیٹے خالد اور اپنے غلام سلیم کے ساتھ دشمن سے مردانہ وار لڑے اور شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت کے بعد آنحضورﷺ نے فرمایا: ''اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو کسی بات پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا کر دیتا ہے‘‘۔ یہ شہیدِ وفا بھی ایسے لوگوں میں سے تھا۔ ایک روایت میں آنحضورﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ''میں عمرو بن جموح کو جنت میں چلتا ہوا دیکھ رہا ہوں‘ جہاں اس کا پائوں بالکل ٹھیک ٹھاک ہے‘‘۔ حضرت عمروؓ کے برادرِ نسبتی حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن حرام بھی اس جنگ میں شہید ہو گئے تھے۔
حضرت عمروؓ کی اہلیہ اور حضرت عبداللہؓ کی بہن سیدہ ہند بنت عمرو بن حرام رضی اللہ عنہا کا بھی تاریخ اسلامی میں بڑا عظیم مقام ہے۔ جنگ احد کی پریشان کن خبریں مدینہ میں پہنچیں تو کئی خواتین میدانِ جنگ کی طرف چل پڑیں۔ ان میں حضرت ہندؓ بھی شامل تھیں۔ انہیں ان کے شوہر عمروؓ‘ فرزند خلادؓ اور بھائی عبداللہؓ کی شہادت کی خبر ملی۔ ہر خبر پر وہ انالِلہ پڑھتیں اور پوچھتیں کہ آنحضورﷺ کا کیا حال ہے‘ جب انہیں بتایا گیا کہ آنحضورﷺ خیریت سے ہیں تو کہا کہ میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہوں۔ جب آنحضورﷺ کو سلامت دیکھا تو اس عظیم خاتون نے پکار کر کہا: (ترجمہ) ''یارسول اللہﷺ آپ سلامت ہیں تو ہر مصیبت ہیچ ہے‘‘۔ وقت گزر گیا‘ صدیاں بیت گئیں‘ مگر یہ الفاظ ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہیں گے۔ یہ آج بھی اسی طرح ترو تازہ ہیں جس طرح ادائیگی کے وقت تازہ اور معطر تھے۔
حضرت انسؓ بن نضر نے حضرت سعدؓ بن معاذ کو دیکھا تو پوچھا: ''سعد کہاں جا رہے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: ''تم نے سنا نہیں کہ حضورﷺ شہید ہو گئے ہیں‘‘۔ یہ سن کر انسؓ بن نضر نے برجستہ جواب دیا: ''اے سعد اُس خدا کی قسم جو فتوحات دیا کرتا ہے‘ مجھے احد کے پار سے جنت کی خوشبو آ رہی ہے۔ اگر حضورﷺ اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے ہیں تو پھر اب زندگی کا کیا لطف ہے‘‘۔ یہ کہتے ہی وہ دشمن پر حملہ آور ہوئے اور نہایت بہادری سے لڑے۔ ہر جانب سے دشمن کے حملوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے۔ شہادت سے قبل حضرت انسؓ کی زبان پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام تھا۔ دورانِ قتال ہی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض کیا: ''اے اللہ ان مشرکین نے جو کچھ کیا ہے‘ میں اس سے بری ہوں اور ان مسلمانوں نے (درے والوں نے درہ چھوڑ کر اور دوسروں نے میدان سے منہ موڑ کر) جو کچھ کیا ہے میں تیری خدمت میں اس کی معذرت پیش کرتا ہوں‘‘۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی