اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مہنگائی میں کمی‘ اثرات اور توقعات

ادارۂ شماریات کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 44 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ ستمبر میں مہنگائی کی شرح 6.9 فیصد رہی جو کہ اگست میں 9.64 فیصد تھی جبکہ گزشتہ برس ستمبر میں مہنگائی کی شرح 31.4 فیصد تھی۔ رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ کے دوران اوسط مہنگائی 9.19 فیصد رہی جو گزشتہ سال کے اس دورانیے میں 29 فیصد تھی۔ مہنگائی کا ایک ہندسے میں آنا ایک اہم سنگ میل ہے جو گزشتہ ماہ عبور کر لیا گیا اور اب یوں لگتا ہے کہ مہنگائی کی اترائی کا سفر جاری رہے گا جس کے اثرات عوام کے روز مرہ اخراجات اور ملک کی مجموعی معیشت کے لیے اہم ہوں گے۔ مہنگائی میں کمی کا ایک بڑا اثر شرح سود میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ گزشتہ ماہ سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں دو فیصد کمی کے ساتھ اسے 17.5 فیصد کیا گیا۔ جون کے بعد شرح سود میں یہ تیسری مسلسل کٹوتی تھی۔ستمبر کے دوران بھی جس طرح مہنگائی میں واضح کمی آئی ہے اس سے شرح سود میں مزید کمی کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔ گزشتہ ماہ وزیر اعظم نے کابینہ میٹنگ میں کہا تھا کہ شرح سود کو بتدریج کم کرتے ہوئے اسے ایک ہندسے تک لانے سے زراعت اور صنعتوں کو بہت فائدہ ہو گا۔ حکومت کی جانب سے یہ ایک حوصلہ افزا اشارہ ہے جس کے اثرات معیشت کے لیے خاصے مفید ہو سکتے ہیں۔ ملک عزیز میں شرح سود اس خطے کی بلند ترین سطح پر رہی ہے۔ اب بھی جبکہ مسلسل تین بار اس میں کمی کی جاچکی ہے‘ یہ دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے میں تقریباً دگنا ہے۔ مثلاً بھارت میں 6.5 اور بنگلہ دیش میں 8.5 فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قرضہ اس خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ مہنگا ہے اور مہنگے قرض سے جو کاروبار ہو گا اس میں نفع کا تناسب بھی کم ہو گا‘ اس لیے قرض لے کر پاکستان میں کاروبار کرنا پچھلے کئی سال سے کوئی قابلِ عمل ذریعہ نہیں سمجھا جاتا؛ چنانچہ بینکوں کے سب سے زیادہ قرض حکومتیں لے رہی ہیں۔سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مئی 2024ء میں حکومت کے لیے کمرشل بینکوں کی فنانسنگ تقریباً 44 فیصد بڑھ کر 28.92 ہزار ارب روپے تک پہنچ گئی تھی جو ایک سال پہلے اسی مہینے میں 20.14 ہزار ارب روپے تھی۔دوسری جانب‘ نجی شعبے کے لیے بینکوں کے قرض مئی میں 12.17 ہزار ارب روپے تک تھے جو مئی 2023ء میں 12.07 ہزار ارب روپے تھے۔ یعنی پچھلے ایک سال میں نجی شعبے کو دیے گئے قرضوں میں ایک فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا۔یہ صورتحال سرمایہ کاری اور کاروباری وسعت کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ افراطِ زر میں کمی کے ساتھ شرح سودکو بھی کم کیا جائے اور بڑی تیزی کے ساتھ اسے خطے کے دیگر ممالک کے برابر‘ایک ہندسے میں لایا جائے۔ ملکی معیشت کے لیے یہ معتدل حالات کا اشارہ ہے۔ آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کے ایک بڑے پروگرام کی منظوری کے ساتھ معیشت کو مزید حوصلہ ملا ہے اور اس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا جو سرمایہ کاری کے لیے باعثِ کشش ثابت ہو سکتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے بھی ملکی معیشت کے حوالے سے مثبت تجزیات پیش کررہے ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے گزشتہ ماہ جاری کی گئی ’ایشین ڈویلپمنٹ آؤٹ لُک‘ میں پاکستان کے حوالے سے مثبت رائے قائم کی ہے اور کہا ہے کہ نجی سرمایہ کاری کی بحالی کی مدد کے ساتھ مالی سال 2025ء میں نمو مزید بہتر ہو کر 2.8فیصد تک پہنچ جائے گی۔ یہ عندیے خوش آئند ہیں مگر انہیں حقیقت بنانے کے لیے سیاسی سطح پر درست حکمت عملی‘ قومی اتفاق و اتحاد اور سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ انتشار کے ماحول میں معیشت سب سے پہلا ہدف بنتی ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں