اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آئینی ترامیم، مفاہمت کی ضرورت

مجوزہ آئینی ترامیم کیلئے حکومت بدستور پُر عزم ہے اور ووٹوں کی مطلوبہ تعداد کو پورا کرنے کیلئے سیاسی رابطے جاری ہیں۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے حکومتی مسودے کے چیدہ چیدہ نکات بھی منظر عام پر آ گئے ہیں جن سے مجوزہ عدالت کے خدو خال اور اس حوالے سے حکومتی نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ حکومتی مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیراعظم کو دیے جائیں گے ۔ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کا تقرر صدرِ مملکت وزیر اعظم کی مشاورت سے کریں گے ۔ سب سے اہم یہ کہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ ایک خبر کے مطابق حکومتی ترمیمی مسودے میں یہ بھی شامل ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوگا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر تین سینئر ترین ججز میں سے کیا جائے گا۔حکومتی مسودے کے جو مبینہ نکات سامنے آئے ہیں ان سے یہ باور کرنا مشکل نہیں کہ اب تک اس معاملے میں اتفاقِ رائے پیدا نہ ہونے کی اصل وجوہ کیا ہیں۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے بھی ایک ترمیمی مسودہ تیار کیا گیا ہے جو کہ آئینی ترمیمی مسودے کی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کا ایک الگ مسودہ ہے ‘ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنماؤں کے مطابق اُن کے اور پیپلز پارٹی کے مسودے میں بہت کم فرق ہے۔ یعنی مفاہمت کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر آئین میں مذکورہ تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے تو یہ عمل مفاہمت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ آئین ریاست کی سب سے اہم دستاویز ہے ‘ اسے سیاسی پسند ناپسند کی بھینٹ چڑھانا کسی طور مناسب نہیں ۔ خوش آئند بات ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے ایک ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جس کا بنیادی مقصد ہی ترمیم مسودے پر اتفاقِ رائے قائم کرنا ہے۔ آئینی ترمیم کا معاملہ احتیاط طلب ہے ؛چنانچہ اس میں جلد بازی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ اسے ہنگامی بنیادوں پر مکمل ہونا چاہیے۔ حکومت کا ابھی پہلا برس ہے۔ ظاہر ہے اور بہت سے چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ ابھی معاشی مسائل کا بھاری پتھر قومی ترقی کی راہ میں پڑا ہے۔ آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے پروگرام سے ادائیگیوں کے معاملات کسی قدر سیدھے ہوئے ہیں مگر یہ واضح ہونا چاہیے کہ ملکی معیشت کو کسی قرض کے سہارے نہیں صرف اصلاحات اور بہتر حکومتی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی سے بچایا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے حال ہی میں ایک جامع رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں نئے قرض پروگرام کے حوالے سے خاصی تفصیلات موجود ہیں ۔ ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کئی قیمتی مشورے بھی اس دستاویز میں شامل ہیں۔ یہاں چند ایک کا ذکر بے محل نہیں ہو گا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کرپشن اور سرخ فیتہ پاکستانی معیشت کی نمو اور سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے بڑی رکاوٹ ہے۔ مضبوط گورننس اور انسدادِ بدعنوانی کے مؤثر نظام کو معاشی نمو کیلئے اہم قرار دیا گیا ہے ۔سرکاری کاروباری اداروں میں اصلاحات کی تجویز دی گئی ہے اور بدعنوانی اور سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمات اور تفتیش کے نقائص سے نمٹنے کیلئے احتساب کے مؤثر نظام کا مشورہ دیا گیا ہے۔آئینی ترامیم ‘ بالخصوص وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی اہمیت اپنی جگہ مگر اس کیلئے قومی مفاہمت کے ذریعے زمین ہموار کرنی چاہیے۔ حکومت کی جانب سے زور زبردستی یا جلد بازی کا تاثر کئی مغالطے پیدا کر چکا ہے اور ان کے اثرات کسی لحاظ سے بھی اچھے نہیں۔ آئینی ترامیم کی ضرورت و اہمیت واضح کرنے کیلئے حکومت کو ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مفاہمت ان میں سے ایک ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں