وزیراعظم کا دورۂ سعودی عرب وقطر
وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب و قطر کو ملکی اقتصادیات وخارجہ تعلقات کے باب میں ایک اہم پیشرفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ وزیراعظم نے سعودی دارالحکومت ریاض میں دو روزہ فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے دوران دو طرفہ تعلقات‘ تجارت اور سرمایہ کاری‘ ثقافت اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ دو ہفتے قبل سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری خالد بن عبدالعزیز الفالح کے زیر قیادت سعودی سرمایہ کاروں کے دورۂ پاکستان کے موقع پر دونوں ملکوں میں دوارب 20کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ ہواتھا ‘ تاہم حالیہ دورے میں سرمایہ کاری کا حجم دو ارب 80 کروڑ ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔ بقول وزیراعظم‘ سعودی عرب نے معاہدوں کی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی مفاہمتی یادداشتوں پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ویژن 2030ء کے تحت سعودی عرب اندرون اور بیرون ملک سرمایہ کاری کے بہترین مواقع کی تلاش میں ہے اور پاکستان اس حوالے سے سعودی عرب کو اچھے مواقع فراہم کرسکتا ہے۔ ملک عزیز صنعت‘ زراعت‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کان کنی سمیت لگ بھگ سبھی ایسے شعبوں میں مواقع سے بھرپور ہے جن میں اس وقت سعودی عرب سرمایہ کاری کے مواقع کی تلاش میں ہے۔ چونکہ پاکستان سرمایہ کاری لانے کا خواہش مند ہے اس لیے یہ دونوں ملکوں کیلئے معاشی میدان میں پیشرفت کا بہترین موقع ہے۔ 2019ء میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان کے موقع پر 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا تھا اور رواں سال جولائی میں سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری کے دورۂ پاکستان سے سرمایہ کاری منصوبوں پر تیز رفتار پیشرفت کا آغاز ہوا ہے۔ حالیہ چند ماہ میں دونوں ملکوں میں جس طرح اعلیٰ سطحی وفود کا تبادلہ ہوا ہے اس سے بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی حکومتی کوششیں بارآور ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ سعودی عرب کے بعد وزیر اعظم کے دورۂ قطر سے بھی توانائی سمیت متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری اور آئندہ نجکاری کے عمل میں شرکت کے حوالے سے پیشرفت کی توقع ہے جبکہ قطر میں پاکستانی کارکنوں کیلئے ملازمتوں کے زیادہ مواقع پیدا کرنے اور قطری سرمایہ کاروں سے ملاقاتوں کے بھی مثبت نتائج کی توقع ہے۔وزیر اعظم کے دورۂ قطر میں ایل این جی معاہدوں پر نظر ثانی اور کارگو ترسیل کی ری شیڈولنگ پر بھی مثبت ردعمل کی توقع ہے۔ اس وقت پاکستان میں بجلی کی کھپت میں کمی واقع ہونے سے توانائی کی پیداوار میں ایل این جی کے استعمال میں کمی آئی ہے۔ سوئی ناردرن پہلے ہی مائع گیس کی درآمدات میں کمی کی درخواست کر چکی ہے لہٰذا اس دورے میں یہ معاملہ طے پانے کا امکان ہے۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی رواں سال دورۂ پاکستان کاعندیہ دے چکے ہیں‘ اس دوران قطری سرمایہ کاروں کے ساتھ مزید شعبوں میں اقتصادی تعلقات استوار ہونے کی توقع ہے۔ الغرض یہ صورتحال حوصلہ افزا پیشرفت کو ظاہر کرتی ہے‘ تاہم اس حوالے سے داخلی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری پر آمادہ کر رہی ہے مگر سرمایہ کاری کے ہر منصوبے کی نوعیت منفرد ہے اور اسے عملی صورت دینے کے لوازم بھی جدا ہیں‘ تاہم جو چیز سبھی معاملات میں یکساں مؤثر ہے وہ سرمایہ کاری کیلئے مناسب ماحول‘ درپیش رکاوٹوں کا خاتمہ اور عزم اور خلوص کے ساتھ کام کرنے کا جذبہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے محض سرمایہ کاروں کو ہی راغب نہ کیا جائے بلکہ متعلقہ منصوبوں کو عملی شکل دینے میں بھی بھرپور عزم کے ساتھ کام کیا جائے۔