اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

معاشی استحکام کی بنیاد

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہاہے کہ حکومتی اقدامات سے معیشت درست سمت میں جارہی ہے ‘ مہنگائی اور شرح سود میں کمی آئی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ بقول اُن کے‘ آئی ایم ایف حیران ہے کہ چودہ ماہ میں معیشت کیسے سنبھل گئی۔ وزیر خزانہ میکرو معاشی اشاریوں کی بات کر رہے تھے‘ مگر عام آدمی کی معیشت کی بات کی جائے تو یہ بدستور بحران سے دوچار ہے اور شرحِ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق غربت کی شرح 38.6 فیصد سے بڑھ کر 39.5 فیصد ہو چکی ہے۔ یہ تو قومی سطح کی اوسط غربت کے اعداد ہیں‘اگر صوبائی سطح پر دیکھا جائے تو بے روزگاری کی صورتحال کہیں زیادہ گمبھیر ہے کہ بلوچستان میں یہ 70 فیصد پر ہے‘ خیبر پختونخوا میں 48 فیصد اورسندھ میں 45 فیصد۔ صرف پنجاب ہی ایسا صوبہ ہے جہاں بے روزگاری کی شرح ملکی کی اوسط شرح سے کم ہے۔ گزشتہ ماہ ورلڈ بینک نے پاکستان میں غربت کی صورتحال پر جو رپورٹ جاری کی اس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء تک ملک میں غربت کی شرح 40فیصدکے لگ بھگ رہے گی۔دوسری جانب بے روزگاری کی شرح بھی اس وقت تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد ہے اور نوجوان آبادی بے روزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 11 فیصد بتائی جاتی ہے۔افراطِ زر میں کمی کیلئے حکومتی کوششیں اپنی جگہ مگر بے روزگار ی کی شرح میں جب تک واضح کمی نہیں آتی مائیکرو معاشی اشاریے تسلی بخش حد تک نمو نہیں پاسکتے؛ چنانچہ صنعتی فروغ کی جانب حکومت کو خصوصی توجہ دینا ہو گی اور نئی صنعتوں کے قیام کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔افراطِ زر اور شرح سود میں کمی سے اصولی طور پر صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ ہونا چاہیے ‘ البتہ صنعتی ترقی کیلئے یہی سب کچھ نہیں کیونکہ توانائی‘ ٹیکس اور حکومتی ترجیحات بھی صنعتی ترقی کیلئے اہم ہیں۔حکومت کی جانب سے چین‘ سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات سمیت ہر اس ملک کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر سفارت کاری کی ضرورت ہے جو پاکستان میں صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کے معاشی مواقع معمولی نہیں‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور ان مواقع سے استفادہ کیا جائے۔ اس خطے کے کئی ممالک چند دہائیوں میں صنعت کاری میں پاکستان کی پون صدی کی تاریخ پر بازی لے گئے۔ آج ان کی برآمدات ملک عزیز سے دوگنی تگنی ہیں ۔اس کی اگر کوئی وجہ ہے تو وہ ترجیحات کا فرق ہے۔ وزیر خزانہ جس تندہی سے میکرو استحکام کیلئے کوشاں ہیں اور ریونیو کے اہداف حاصل کرنے کیلئے نت نئے شعبے دریافت کررہے ہیں ‘ انہیں مائیکرو استحکام کا بھی سوچنا ہو گا جو کہ میکرو استحکام کیلئے ڈرائیونگ فورس بن سکتا ہے ۔ جب لوگوں کے پاس کچھ ہو گا ہی نہیں تو معیشت کا پہیہ سست روی کا شکار ہوگا جس سے ٹیکس وصولیوں میں بھی کمی آئے گی اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو گا۔چنانچہ ضروری ہے کہ عملی اور حقیقی بنیادوں پر عوامی قوتِ خرید بڑھانے کے اقدامات کی جانب توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں کثیر جہتی اقدامات ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نوجوان‘ جو بے روزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہیں‘ کو مختلف ہنر سیکھ کر روزگار کیلئے خود کفیل بنایا جا سکتا ہے۔ یہی ہنر نوجوانوں کو بیرونِ ملک ملازمت کے مواقع حاصل کرنے میں بھی مدد فراہم کرسکتے ہیں۔یہ منصوبے معیشت کیلئے انقلابی تبدیلی کا سبب نہ بھی بنیں تو کم از کم بہت حد تک بے روزگاری کے مسائل کم ضرور کر سکتے ہیں۔تاہم پاکستان جیسے بڑے آبادی والے کسی ملک کا معاشی استحکام مضبوط صنعتی بنیاد کے بغیر ممکن نہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں