سیاسی بحران لمحۂ فکریہ
ملک عزیز اس وقت دو بحرانی کیفیات کا سامنا کررہا ہے۔ ایک طرف دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں اور دوسری جانب سیاسی بے چینی‘ ہنگامہ آرائی اوراحتجاج۔ یہ حالات اس لحاظ سے غیر معمولی ہیں کہ اس سے قبل ایسا موقع نہیں آیا کہ یہ دونوں بحران ایک ہی وقت اکٹھے ہو گئے ہوں ۔ ماضی میں دہشت گردی کی سنگین صورتحال کا سامنا بھی رہا اور وقتاً فوقتاً سیاسی بے چینی بھی سر اٹھاتی رہی مگر قومی سلامتی کے چیلنجز کے دوران سیاسی اختلافات کو بھلاکر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی روایت رہی ہے ‘ جو اس دفعہ دکھائی نہیں دے رہی۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 24 نومبر کے احتجاج کا اعلان کیا گیا تو حکومت اور پی ٹی آئی میں کسی سطح پر قیاس آرائی کے امکان کا اظہار بھی کیا جانے لگا‘جس سے دونوں فریقوں میں برف پگھلنے کی امید پید اہوئی‘ مگر طرفین میں تناؤ سے یہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں ۔حکومت کہہ چکی ہے کہ کسی ریلی کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ پی ٹی آئی کسی صورت احتجاج مؤخر کرنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ حکومت اور پی ٹی آئی کی اس پنجہ آزمائی میں اصل متاثرہ فریق عوام ہیں۔ موٹر ویز بند کر دیے گئے ہیں ‘بین الاضلاعی ہائی ویز پر بھی جگہ جگہ رکاوٹوں کی اطلاعات ہیں۔ پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرے کو روکنے کیلئے بظاہر حکومت کے انتظامات بھر پور ہیں مگر سیاسی احتجاج کے نام پر جو کچھ ملک میں چل رہا ہے اس کی معاشی اور سماجی قیمت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ احتجاج کا مطلب معاشی سرگرمیوں کی بندش ہے۔ احتجاج کا مقصد یا نعرہ جو بھی ہومگر ایک بات طے ہے کہ معاشی سرگرمیوں کیلئے اس کا نتیجہ منفی آتاہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی ایک تحقیق کے مطابق سیاسی اور عوامی احتجاج سے جی ڈی پی کے 3 فیصد کے برابر نقصان ہوتا ہے۔معاشی اثرات کے علاوہ احتجاج کے عوامی اور سماجی اثرات بھی قابلِ غور ہیں۔ ہر احتجاج عوام کیلئے کسی نہ کسی صورت میں مشکلات لے کر آتا ہے۔ تازہ ترین صورتحال کو دیکھ لیں کہ ملک کے شمالی ‘ وسطی اور جنوبی علاقوں میں زمینی رابطے کا کلیدی ڈھانچہ مکمل طور پر بند ہے۔شہروں کی ناکہ بندی غیر معمولی ہے اور عوام کیلئے اس کے اثرات شدید تر ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر شاہراہوں کی بندش کے فیصلے کی جو بھی توجیح پیش کی جائے مگر عوام کیلئے اس کا مطلب صرف اور صرف تکلیف ہے۔ یہ صورتحال پنجاب اور خیبر پختونخوا کے زیادہ تر علاقوں کے عوام کی ہے‘ مگر احتجاج کے طوفان کی آنکھ‘ اسلام آباد اور راولپنڈی کے عوام پر کیا گزررہی ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ اس قسم کی صورتحال عوام میں بے یقینی‘ عدم تحفظ اور بے بسی کے احساسات کو بڑھاوا دیتی ہے جبکہ عالمی سطح پر ملک کا تشخص مجروح ہوتا ہے۔ معیشت کی ترقی ملک میں نارمل حالات کا تقاضا کرتی ہے۔ ایسے ممالک جہاں آئے روز سیاسی اور دیگر معاملات پر سڑکیں ‘ بازار‘ شہر اور صوبے بند کرائے جاتے ہوں وہاں معیشت کا معمول برقرار نہیں رہ سکتا ۔ اس قسم کے حالات میں اگر سرمایہ راہِ فرار اختیار کرے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں؛چنانچہ ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کسی سیاسی نتیجے پر پہنچیں تا کہ آئے روز کے احتجاجی سلسلوں سے ملک اور عوام کو نجات ملے۔ ان حالات میں جبکہ معاشی اشاریوں میں کچھ بہتری آنا شروع ہوئی ہے حکومت کا مطمح نظر یہ ہونا چاہیے کہ ہر ممکن طریقے سے یقینی بنایا جائے کہ احتجاج کی سیاست معاشی منصوبوں کیلئے سد راہ نہ بنے۔ اس کیلئے سیاسی مفاہمت کے بغیر کوئی راستہ نہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک یہ سوچ حکومت اور اپوزیشن میں سے کسی دھڑے میں بھی پیدا نہیں ہو سکی۔اس طرح دونوں جانب کی انا ملکی مفادات کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ ان حالات میں جب پاکستان کو صرف معاشی نہیں دہشت گردی کے سنجیدہ خطرات کا بھی سامنا ہے ضروری ہے کہ سیاسی عصبیت کے بجائے ملکی مفاد کو مد نظر رکھ کر سوچا جائے۔