اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

احتجاجی سیاست کے مضمرات

وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں احتجاج کو ختم کرنے پر سکیورٹی اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج اور سکیورٹی اداروں نے بہت اچھی حکمت عملی سے دھرنے کا خاتمہ کیا اور عوام کو سکون میسر آیا۔ احتجاجی سیاست کرنے والے ترقی کے مستقل دشمن ہیں‘ آج کے بعد ان کو مزید موقع نہیں دیا جائے گا۔ اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں سرمایہ کاری وہاں ہوتی ہے جہاں امن ہو‘ قوم کو فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں کس طرف جانا ہے۔ وزیراعظم نے احتجاج کے معاشی وسماجی مضمرات پر جو خطاب کیا ہے وہ ہر طبقہ فکر کو بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ گزشتہ کم و بیش ایک دہائی سے ہم مضطرب سیاسی لہروں کے دوش پر سوار ہیں جو اپنی بے سمتی کے سبب فاصلے کو سمیٹنے کے بجائے مزید بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں۔ 2014ء‘ 2017ء‘ 2019ء‘ 2020ء‘ 2022ء‘ 2023ء اور اب 2024ء‘ ماضی قریب میں کون سا برس ہے جس کی سیاسی مہم جوئی کے حوالے سے منفرد پہچان نہ ہو؟ ہمارے چند حل طلب مسائل ہر کچھ عرصے بعد ایک نیا روپ دھار کر ہمارے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں اور دہائیوں کے معاشی سفر کو رائیگاں کر دیتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سیاسی قیادت اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے‘یہی وجہ ہے کہ دائرے کا سفر ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہا۔ سیاسی رہنما ان مسائل کو حل کرنا تو دور‘ ان کے ادراک کی صلاحیت سے بھی محروم نظر آتے ہیں۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ایک دن کے احتجاج سے ملک کو روزانہ 190 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔اگر اس اندازے کو کلیہ بنا کر حساب کیا جائے تو پچھلے چھ ماہ کے دوران اندازاً تین ہزار ارب روپے کا نقصان تو صرف احتجاجی سیاست کی وجہ سے ہو چکا ہے۔ ای کامرس اور ملحقہ شعبوں کو پہنچنے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ احتجاج کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ معاشی سرگرمیاں ماند پڑنے سے ریونیو شارٹ فال بڑھ جاتا ہے جبکہ ٹیکس اہداف پورے نہ ہونے سے عالمی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرض پیکیج کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ منی بجٹ اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی وجوہات تلاش کی جائیں تو ان میں بھی سیاسی محاذ آرائی اور افہام و تفہیم کے بجائے طاقت سے مسائل کے حل کی روش کارفرما نظر آئے گی۔ محض وفاقی دارالحکومت میں احتجاج سے روزانہ آٹھ لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوتے ہیں اور اگر ملک کے دیگر بڑے شہر بھی شامل کر لیں تو ایک دن کا احتجاج نہ صرف کروڑوں افراد کو متاثر کرنے کا سبب بنتا ہے بلکہ اس سے معاشی نقصان بھی دوچند ہوجاتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو سات ارب ڈالر کے قرض پیکیج کے لیے خواہی نخواہی عالمی مالیاتی ادارے کی سخت ترین شرائط پوری کرنے پر مجبور ہے‘ کیا سیاسی احتجاجوں کے لیے ملک کو بند رکھ کر ہر روز اتنے بڑے نقصان کا متحمل ہو سکتا ہے؟ منگل کے روز پاکستان سٹاک مارکیٹ میں مندی کی وجہ بھی سیاسی کشیدگی کے علاوہ اور کیا تھی جب کاروباری دن کے اختتام پر کے ایس ای 100 انڈیکس میں ساڑھے تین ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ماحول اگر سیاسی تلخی سے اٹا پڑا ہو تو نہ صرف مستقبل کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد کے امکانات متاثر ہوتے ہیں بلکہ دیر پا منصوبوں اور ضروری اقدامات سے بھی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ آئی ایم ایف سمیت متعدد عالمی ادارے پاکستان کو معاشی استحکام کی راہ میں سیاسی بے یقینی اور سماجی تناؤ کے خطرے کے حوالے سے خبردار کر چکے ہیں۔ ملکی ترقی کا حقیقی سفر اس وقت تک شروع نہیں ہو سکتا جب تک سیاسی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت وہاں کے سیاسی اور سماجی نظام میں پیوست ہوتی ہے۔ سرمایہ کار صرف وہاں پر ہی سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتا ہے جہاں اس کو نہ صرف جان ومال کے تحفظ کا احساس ہو بلکہ یہ بھی تسلی ہو کہ اس کا معاشی منصوبہ کسی سیاسی اتھل پتھل کی نذر نہیں ہوگا۔ سنگاپور سے چین اور مشرقِ وسطیٰ سے یورپ تک‘ دنیا میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ہے کہ کسی ملک نے سیاسی استحکام کے بغیر ترقی کا سفر طے کیا ہو۔پالیسیوں میں استحکام اور تسلسل سیاسی استحکام ہی کے ذریعے آتا ہے۔ امن و امان اور سیاسی استحکام سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور نتیجتاً ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ مسلسل بے نتیجہ احتجاجوں اور سیاسی مہم جوئیوں کا نتیجہ ہم دیکھ چکے‘ اب اس روش پر فل سٹاپ لگنا چاہیے۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت مل کر بیٹھے اور اس حوالے سے مستقل حل نکالے تاکہ کسی کے گروہی مفادات ملکی اقتصادیات کو یرغمال نہ بنا سکیں۔ماضی میں جو کچھ ہو چکا‘ اسے پیچھے چھوڑ کر آج ہمیں ایک نئے سفر کی بنیاد رکھنی ہے۔ ہمارے ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت آج ماضی سے کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ آج مسائل کی نوعیت ماضی سے زیادہ شدید ہے اور ان مسائل پر قابو پانا نہ صرف آج کی ضرورت ہے بلکہ یہ ملک و قوم اور ہماری نسلوں کے مستقبل کا بھی سوال ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں