پولیو‘ بہتر حکمت عملی ضروری
جیکب آباد‘ سکھر‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک سے چار نئے پولیو کیس رپورٹ ہونے کے بعد ملک میں رواں برس پولیو کیسز کی تعداد 63ہو چکی ہے۔ گزشتہ برس صرف چھ پولیو کیس رپورٹ ہوئے تھے اور 2022ء میں 20تھے اور 2021ء صرف ایک۔ پاکستان میں 1994ء سے انسدادِ پولیو پروگرام کام کر رہا ہے لیکن 30برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود ہمارا ملک پولیو سے پاک نہیں ہو سکا۔اگر تین دہائیوں کی انسدادِ پولیو مہم کے باوجود ملک پولیو سے پاک نہیں ہوسکا تو حکام کو اُن اسباب کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے جو پولیو کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ سو فیصد بچوں کی پولیو ویکسی نیشن نہ ہونا اس حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ 11 دسمبر کو وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صحت کی زیر صدارت ایک اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ رواں برس رپورٹ ہونیوالے پولیو کیسوں میں 60فیصد بچوں کو روٹین امیونائزیشن کی کوئی ویکسین نہیں لگی۔ ان اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکام محض پولیو مہم کا اعلان کرکے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہو سکتے۔ پولیو کے خاتمے کیلئے ایک نئی اور بہتر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے والدین کا کردار بہت اہم ہے۔ پولیو ورکر قطرے پلانے کیلئے ہر گھر تک پہنچتے ہیں‘ والدین اپنے بچوں کو گھر کے دروازے تک لانے کی زحمت تو کر ہی سکتے ہیں۔