سیاسی مفاہمت، قومی تقاضا
حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے بلا مشروط آمادگی کا اشارہ خوش آئند ہے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کی جانب سے جو پیشگی مطالبات رکھے گئے تھے وہ مذاکرات کی راہ میں بڑی رکاوٹ نظر آرہے تھے ‘تاہم پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے گزشتہ روز یہ کہہ کر کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی بیٹھک ہی ہے‘ سیاسی مذاکرات کے مستقبل کے لیے امید پیدا کر دی ہے۔پی ٹی آئی کی جانب سے یہ عندیہ مستحسن ہے اب پارٹی کو اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ بیانیہ صرف سیاسی نہیں بلکہ حقیقتاً پی ٹی آئی سیاسی بات چیت کے لیے تیارہے ۔ سردست بیرسٹر گوہر علی خان کے اس بیان کو الگ کر دیں تو پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کی رضا مندی کے لیے کوئی قابلِ ذکر شہادت نہیں ملتی۔ اگرچہ اس بار مذاکرات کی تجویز پیش کرنے میں پی ٹی آئی کو حکومت پر سبقت حاصل ہے تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے سول نافرمانی کی چتاؤنی نے رنگ میں بھنگ ڈال دی ۔ اس قسم کی فہمائش سے یہ تاثر رد کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ پی ٹی آئی گویا حکومت کو دباؤ میں مذاکرات کی طرف لانا چاہتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سیاسی فریق کی نیت میں یہ نہ ہو تا ہم بادی النظر میں اس رویے کا یہی مطلب نکلتا ہے اور یہ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کی راہ میں بڑی رکاوٹ نظر آتا ہے ۔ جہاں تک مذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کو حل کرنے کی تجویز ہے تویہ وقت کا تقاضا اور سیاسی دوراندیشی کی علامت ہے اور اس سے قطع نظر کہ یہ تجویز کس کی طرف سے آئی قومی مفادات کا تقاضا یہی ہے کہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے ۔ مذاکرات کے عمل میں پی ٹی آئی کی سنجیدگی ہی سے یہ ظاہر ہو گا کہ قومی مسائل کے حل کے لیے اُس کی آمادگی کا کیا عالم ہے‘ کیونکہ اس سے قبل جب بھی سیاسی مذاکرات کی بات آئی تو یہ کسی نہ کسی فریق کی ضد کی نظر ہو گئے۔ بات چیت تحمل اور خیر سگالی کے جذبات کے بغیر ممکن نہیں ہوتی اور اس کے لیے لچک دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر کوئی بھی فریق اس کے لیے تیار نہیں ہوا‘ جس کی وجہ سے مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ پاتی ۔ اس سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سیاسی اختلافات صرف سیاست تک محدود نہیں رہتے‘ سماج کے ہر شعبے پہ اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے سبھی حلقے چاہتے ہیں کہ سیاسی حدت میں کمی آنی چاہیے اور معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب نہیں بڑھنا چاہیے۔جب تک سیاسی عدم استحکام اور جمود ختم نہیں ہو گا ترقی کی جانب ہماری پیش رفت رکاوٹوں سے دوچار ہوتی رہے گی ۔سیاسی جماعتوں کے مابین اختلاف خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں‘بات چیت کی گنجائش ہمیشہ موجود رہنی چاہیے۔پی ٹی آئی کی قیادت کو سیاسی تدبر اور دور اندیشی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ’’مارو یا مرجاؤ‘‘ والی ذہنیت انقلابی تحریکوں میں تو چل جاتی ہے مگر یہ جمہوری سیاست کی زبان نہیں۔ جمہوریت میں جیو اور جینے دو والی پالیسی زیادہ دیر پا اور کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی کی قیادت کو اس فکری مغالطے سے بھی نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ایک مکمل جمہوری سیاسی جماعت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ بطور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی صلاحیت کسی بھی دوسری جماعت سے کم نہیں‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی اپنا یہ ملکہ قومی مفاد میں صرف کرے نہ کہ بے ثمر سیاسی انقلابی حرکتوں کی نذر کرتی چلی جائے۔بطور سیاسی جماعت یہ پی ٹی آئی کے لیے کسی امتحان کی سی صورتحال ہے کہ اس نے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ایک جمہوری سیاسی جماعت ہے کوئی ’انقلابی تحریک ‘نہیں اور جیسا کہ بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ بہت ہوگیااب ملک کو بہتری کی طرف بڑھانا چاہیے۔اس عمل میں پی ٹی آئی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔