ٹیکس سسٹم پر عدم اعتماد
ایک عالمی سروے کے مطابق ٹیکس دہندگان کی نصف تعداد یہ سمجھتی ہے کہ انکے ٹیکسوں کا پیسہ عوامی مفاد کے کاموں پر خرچ نہیں ہوتا۔ صرف ایک تہائی افراد ٹیکس کے پیسوں کو عوامی منصوبوں پر لگتا ہوئے دیکھتے ہیں۔ گوکہ اس عالمی جائزے میں زیادہ آبادی والے ممالک اور لاطینی امریکہ پر خصوصی توجہ دی گئی مگر یہ دنیا بھر میں مروجہ ٹیکس سسٹم پر بڑھتے عدم اعتماد کی غمازی کرتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک سروے کے مطابق 84 فیصد عوام ٹیکسوں کو ریاستی انتظام چلانے کیلئے ضروری تصور کرتے ہیں مگر اسکے باوجود عوام کی اکثریت کو یہ یقین ہے کہ انکے ٹیکسوں کا پیسہ اشرافیہ کی سبسڈی اور حکمران طبقے کی مراعات پر خرچ کیا جاتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں پنجاب اسمبلی کے ارکان اور کابینہ کی تنخواہوں میں سینکڑوں فیصد اضافے پر آنیوالا ردعمل اس عدم اعتماد کو بڑھانے کا سبب بنا ہے۔ اقتصادی بحران کا مقابلہ کرنے کیلئے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ناگزیر ہے مگر حکومت کا تمام تر انحصار بالواسطہ ٹیکسوں پر ہے یا پھر ان افراد پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا جاتا ہے جو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں۔ یہ دونوں اقدام ٹیکس نظام کی ناانصافی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ضروری ہے ٹیکس نظام کو منصفانہ بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے اور حکومتی طبقات کی مراعات بڑھانے کے بجائے ان کی بھی فکر کی جائے جن کیلئے جسم و جاں کا رشتہ بحال رکھنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔