موسمیاتی المیہ اور اثرات
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کوہ ہمالیہ کے پہاڑوں پر موجود گلیشیرز کے پگھلاؤ کو نئی نسل کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔ بلاول بھٹو کی تشویش بجا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کو اس انداز سے نہیں سمجھا گیا جس طرح سمجھنے کی ضرورت تھی۔ اس کا خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔ کاربن اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے اور طرح کے ماحولیاتی مسائل کے علاوہ گلیشیر ز کے پگھلنے کا عمل بھی تیز ہو چکا۔ ایک اندازے کے مطابق وطنِ عزیز میں سات ہزار سے زائد چھوٹے بڑے گلیشیرز ہیں اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ان گلیشیرز کے پگھلنے سے اب تک گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں تین ہزار سے زائد جھیلیں وجود میں آ چکی ہیں جبکہ 33 جھیلیں ایسی ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر سیلاب کا باعث بن سکتی ہیں۔ سیلابوں سے ہونیوالی تباہی ایک طرف‘ پاکستان کیلئے اصل خطرہ مستقبل میں پانی کی قلت کا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان2040ء تک اپنے بیشتر گلیشیرز سے محروم ہو جائے گا جس سے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اگرچہ ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن مقامی صنعتوں کو قواعد و ضوابط کا پابند بنا کر‘ لوگوں کو ماحول دوست رویوں کی طرف راغب کرکے اور جنگلات کا رقبہ بڑھا کر ہم اپنے حصے کی شمع جلا سکتے ہیں۔