آبی جارحیت کے مضمرات
پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بھارت کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان کا پانی روکنے کے ردِعمل کے نتائج دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ ایک اور انٹر ویو میں ڈی جی آئی ایس پی آر کاکہنا تھا کہ ہم امن پسند لوگ ہیں مگر بھارت نے ہمیں اُکسایا تو ہمارا ردِعمل شدید اورغضبناک ہو گا۔ سات سے دس مئی تک جاری رہنے والے معرکۂ حق کے بعد پاک بھارت جنگ بندی برقرار ہے اور توقع یہی ہونی چاہیے کہ یہ سلسلہ برقرار رہے‘ مگر دشمن کے عزائم سے بے خبر نہیں ہوا جاسکتا؛ چنانچہ یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ کسی قسم کی اشتعال انگیزی‘ خواہ یہ سرحد ی خلاف ورزی کی صورت میں ہو یا آبی دہشت گردی کی صورت میں‘ ہر طرح کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔پاکستان کی جانب سے دوٹوک الفاظ میں یہ وضاحت ضروری تھی کیونکہ بھارتی عزائم کو دیکھا جائے تو لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کے اندیشوں کے علاوہ پاکستان کا پانی روکنے کے خطرناک ارادے بھی ظاہر و باہر ہیں اور گزشتہ دنوں بھارت کی جانب سے کچھ ایسے اقدامات کی اطلاعات بھی آئیں جن کا مقصد دریائے چناب کے پانی کے بہاؤ پر اثر انداز ہوناتھا۔بھارت ایک عرصے سے دریائے چناب اورجہلم کے پانی کو مختلف حیلوں سے روکنے کی کوشش کرتا آیا ہے مگراب یہ کام کھلم کھلا ہونے جا رہا ہے۔خبروں کے مطابق بھارت کی جانب سے ایسے کئی آبی منصوبوں پر کام جاری ہے جو پاکستان کے پانی پراثر انداز ہو سکتے ہیں۔ پانی کی مقدار جو پہلے ہی خاصی کم ہو چکی ہے‘ بھارتی حکومت کے ان حربوں سے مزید متاثر ہوئی تو پاکستان کیلئے یہ تباہ کن ہو سکتی ہے؛ چنانچہ ضروری ہے کہ اس معاملے میں آنکھیں کھلی رکھی جائیں اور بروقت اقدامات کی مکمل تیاری کی جائے۔ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت میں پانی کی تقسیم کا ایک ایسا فارمولا مقرر کرتا ہے جس پر طرفین نے اتفاق کیا تھا اور قریب سات دہائی سے اس پر کامیابی سے عملدرآمد اس معاہدے کی ایک تاریخی حیثیت متعین کرتا ہے۔ اس دوران دونوں ملکوں میں تنازعات اور کشیدگی کے نجانے کتنے واقعات ہوئے‘ بھارتی حکومتوں نے آبی منصوبوں کے نقشوں میں ہیر پھیر کر کے اپنے حصے کے پانی کی مقدار بڑھانے کی کوششیں بھی کیں‘ معاملات عالمی عدالت میں بھی گئے‘ تصفیے بھی ہوتے رہے‘مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی بھارتی حکومت نے اس معاہدے کی بنیادیں ہلا دینے کا تباہ کن ارادہ ظاہر کیا ہے اور عملی طور پر اس جانب پیشرفت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ مگر اس کے نتائج بھیانک ہوں گے۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا پاکستان کیلئے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں‘ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ اس خطے میں قیام امن کی ضمانت ہے۔ اگر اس بنیاد کو ڈھا دیا گیا تو پاکستان اور بھارت کیلئے تصادم کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے نکلنا ممکن نہیں رہے گا۔ اندیشہ یہ بھی ہے کہ پانی پر ہونے والے تنازعات دریائے سندھ کے طاس تک محدود نہیں رہیں گے۔ پاکستان اور بھارت میں جموں و کشمیر کا مسئلہ آٹھ دہائیوں سے حل طلب ہے اور دونوں ملکوں میں متعدد بڑی‘ چھوٹی اور درمیانی جنگوں اور اَن گنت جھڑپوں کا سبب بن چکا ہے۔ اگر بھارت اس کے ساتھ پانی کا تنازع بھی پیدا کرنا چاہتا ہے تو بھارت کو خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ اس اقدام سے دنیا کے اس حصے میں امن کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ مودی سرکار تو شایداس صورتحال کی لامتناہی تباہی کے نتائج کا درست اندازہ لگانے سے قاصر ہے کہ اس کا تعصب اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کر چکا ہے‘ مگرحیرت ہے کہ بھارت کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اس کی سمجھ نہیں آ رہی کہ آر ایس ایس کی پیدا وار کیسے اُن کیلئے آگ کا دریا بہانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔