گیارہواں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ
گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں سندھ اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ جبکہ پنجاب اور بلوچستان کے وزرائے خزانہ نے اپنے صوبوں کی نمائندگی کی۔ قومی مالیاتی کمیشن کے افتتاحی اجلاس میں مالی صورتحال پر بریفنگ دی گئی‘ جس کے بعد ورکنگ گروپس بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ این ایف سی کے حوالے سے قیاس آرائیوں‘ خدشات کا حل مخلصانہ اور شفاف مکالمہ ہے۔ ہماری پہلی ترجیح ایک دوسرے کی بات سننا ہے‘ امید ہے کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ تعمیری تعاون کے جذبے سے آگے بڑھیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 160کی شق 2 کے تحت قومی مالیاتی کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وفاق اور صوبوں کے درمیان محصولات کی خالص آمدنی کی تقسیم‘ وفاق اور صوبوں میں امدادی رقوم اور قرضوں کے لین دین‘ ان سے متعلق اختیارات اور مالیات سے متعلق صدرِ مملکت کے بھجوائے گئے معاملات سے متعلق لائحہ عمل وضع کرے۔ قومی کمیشن کا بنیادی مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے دیرینہ مسئلے کا حل پیش کرنا ہے۔ اس وقت ملک میں 2010ء میں طے پانے والا ساتواں این ایف سی ایوارڈ نافذ ہے جس کی آئینی مدت پانچ برس تھی مگر اپنی مدت مکمل ہونے کے مزید دس برس تک یہ ایوارڈ نافذ العمل رہا کیونکہ اس کے بعد آٹھویں‘ نویں اور دسویں قومی مالیاتی کمیشنز پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔

گیارہواں مالیاتی کمیشن ایوارڈ رواں سال 22 اگست کو تشکیل دیا گیا تھا تاکہ قابلِ تقسیم وفاقی وسائل کی نئی تقسیم کا فارمولا طے کیا جا سکے اور اس کا ابتدائی اجلاس27 اگست کو طلب کیا گیا تھا مگر یہ اجلاس سیلاب اور دیگر وجوہ کی بنا مؤخر ہوتا رہا اور گزشتہ روز اس کا اولین اجلاس ہوا‘ جس میں ورکنگ گروپس بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو مالیاتی امور کو لے کر آگے بڑھیں گے۔ نئے مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں کے درمیان وسائل کی عمودی اور افقی تقسیم کے فارمولے میں تبدیلی زیر غور ہے؛ یعنی وفاقی ٹیکس وصولیوں کے قابلِ تقسیم حصے کو عمودی طور پر وفاق اور صوبوں کے درمیان تقسیم کرنا اور پھر صوبائی حصے کو افقی طور پر صوبوں کے درمیان تقسیم کرنے کا طریقہ وضع کرنا۔ اس وقت قابلِ تقسیم محاصل میں صوبوں کا عمودی حصہ 57.5 فیصد ہے‘ اس نے اگرچہ صوبوں کی مالی خودمختاری کو بڑھایا ہے مگر وفاق کو شدید مالی دبائو کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ قرضہ جاتی ادائیگیوں اور دفاعی اخراجات پر وفاقی آمدنی کا بڑا حصہ خرچ ہوتا ہے جس کے باعث ترقیاتی اخراجات اور سماجی منصوبوں کیلئے گنجائش نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ اس مالیاتی خلا کو پُر کرنے کیلئے قابلِ تقسیم محاصل سے پہلے انسدادِ دہشت گردی‘ واٹر سکیورٹی‘ آرمڈ فورسز اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کی گرانٹس کا حصہ منہا کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح صوبوں میں محاصل 82 فیصد آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں جبکہ 10.3 فیصد غربت وپسماندگی‘ پانچ فیصد محصولات کی وصولی اور 2.7 فیصد آبادی کی کثافت (آئی پی ڈی) کی مد میں۔
تاہم اب آبادی کا حصہ 60 سے 78 فیصد کرنے کی تجویز ہے‘ اس سے علاقائی تفاوت کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور چھوٹے صوبوں کو زیادہ وسائل میسر آ سکیں گے۔ گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ ایسا قابلِ عمل اور متفقہ فارمولا سامنے لائے جو وسائل کی تقسیم کو متوازن بھی بنائے اور زیادہ شفاف بھی۔ اس سے دفاع‘ انسدادِ دہشت گردی‘ قرضوں کی ادائیگی اور واٹر مینجمنٹ جیسے وفاقی فرائض بھی بخوبی ادا ہوں اور صوبوں کو بھی ان کا پورا حق مل سکے۔ اگر یہ کمیشن اپنے اہداف میں کامیاب ہوا تو نہ صرف وفاق اور صوبوں میں اعتماد بحال ہو گا بلکہ عام شہری کو بھی بہتر سہولتیں میسر آ سکیں گی۔