دہشت گردی کا نیا خطرہ
گزشتہ روز ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں بین الاقوامی فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا نیا خطرہ افغانستان سے اُٹھ رہا ہے‘ عالمی برادری افغان حکومت پر ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے زور ڈالے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان گزشتہ چار برس سے دنیا کو اس خطرے کی جانب متوجہ کرتا آ رہا ہے مگر افغانستان کو اس کی ریاستی ذمہ داریاں باور کرانے میں عالمی برادری کے کردار پر کئی سوال موجود ہیں۔ افغانستان کی زمین صرف دہشت گرد عناصر کیلئے آماجگاہ ہی نہیں وہاں سے انخلا کے وقت غیر ملکی افواج کا چھوڑا ہوا اسلحہ اور دفاعی آلات بھی خطے کی سکیورٹی کیلئے بڑا خطرہ ہیں۔ امریکی حکومت کے ایک نگران ادارے کی رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ افغانستان سے 2021ء میں انخلا کے دوران امریکی ساختہ اربوں ڈالر کے ہتھیار‘ فوجی ساز وسامان اور حفاظتی انفراسٹرکچر جو پیچھے چھوڑ دیا گیا‘ اب طالبان کے سکیورٹی نظام کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان میں سے بہت سے ہتھیار پہلے ہی کالعدم ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگ چکے ہیں جس سے پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک پینل کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کو لاجسٹک اور آپریشنل سپورٹ بدستور جاری ہے‘ جبکہ واشنگٹن پوسٹ نے دستاویزی ثبوتوں کیساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ امریکی ساختہ ہتھیار پاکستان میں دہشتگردی کرنے والوں کے ہاتھوں میں آ رہے ہیں اور دہشتگردی میں استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان میں دہشتگردی کی بڑی وجہ ہے‘ تاہم جس طرح اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ دہشتگردی صرف پاکستان کیلئے نہیں خطے کے سبھی ممالک کیلئے خطرہ ہے۔ پچھلے دنوں تاجکستان میں دہشتگردی کے دو واقعات میں پانچ چینی کارکن ہلاک ہو گئے۔ ان واقعات کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی۔ ان حملوں نے علاقائی سلامتی کے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ افغانستان سے درپیش ان خطرات سے نمٹنے کیلئے خطے کی سطح پر اجتماعی ذمہ داری کا ثبوت دینے اور اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی برادری کی ذمہ داریاں بھی ہیں اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ‘ امریکہ‘ یورپی یونین‘ چین‘ خلیجی ریاستوں اور ترکیہ کا کردار اہم ہو گا‘ تاہم افغانستان کی سرحدوں پر واقع ممالک کیلئے یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے اور فوری اقدامات کا متقاضی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے عبوری افغان حکومت سے اس مسئلے پراعلیٰ سفارتی سطح پر رابطہ کاری کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر بدقسمتی سے افغان رجیم اس مسئلے کا کوئی بھی حل پیش نہیں کر سکا۔ کہنے کو بہت بیان بازی ہوئی اور دہشت گردی کیلئے افغانستان کی زمین استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانیاں کرائی گئیں مگر عملی طور پر اسکے برعکس ہوا۔
حال ہی میں افغان عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر متقی کا ایک بار پھر ایسا ہی بیان سننے میں آیا ہے کہ افغان سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے قبل افغانستان کے 34 صوبوں سے کابل میں جمع ہونیوالے سینکڑوں علما نے ایک قرارداد منظور کی جس میں علاقائی سالمیت کے دفاع‘ افغانستان کی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے‘ افغانوں کی بیرونِ ملک عسکری سرگرمیوں میں شمولیت کی مخالفت اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد پر زور دیا گیا۔ اس قرارداد پر عملدرآمد یقینا افغانستان اور خطے کی سلامتی کیلئے خوش آئند اور باہمی اعتماد میں اضافے کا سبب بنے گا۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ عبوری حکومت کا عملی ردِعمل کیا ہوتا ہے۔ یہ قرارداد ماضی کی طرح صرف زبانی دعوے تک محدود رہتی ہے یا واقعتاً اسکے الفاظ زمینی حقائق میں ڈھلتے ہیں۔ بہرکیف یہ بات یقین کیساتھ کہی جا سکتی ہے کہ افغان عبوری حکومت دہشتگردی کے خلاف سنجیدگی اختیار کرتی اور عملی قدم اٹھاتی ہے تو یہ افغانستان کی داخلی سلامتی اور عالمی تشخص کیلئے بہت اہم پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔