آبی جارحیت کے مضمرات
دریائے چناب پر بھارتی آبی جارحیت کے تازہ واقعات تشویشناک ہیں۔ اس حوالے سے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار نے گزشتہ روز غیر ملکی سفارتکاروں کو بریفنگ دی اور صورتحال کی سنگینی کے بارے اقوام عالم کو آگاہ کیا۔ بھارت کی جانب سے دریائے چناب اور جہلم کے پانی کے بہاؤ پر اثر انداز ہونے کی کوششیں ایک عرصے سے کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں تاہم اس سال معرکہ حق میں پاکستان کے ہاتھوں شکست فاش کے بعد بھارت کی جانب سے آبی جارحیت اور پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے اقدامات کھل کر سامنے آنے لگے۔ دونوں ملکوں میں دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا عالمی معاہدہ 1960ء میں ہوا اور اس معاہدے کے تحت آبی تنازعات کو متفقہ طور پر حل کرنے کیلئے فورمز تشکیل دیے گئے‘ تاہم سندھ طاس معاہدے کیلئے بھارتی عزائم روز بروز خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ معاہدہ دریائی پانی کی تقسیم کے حوالے سے اس حد تک مثالی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس سے دونوں ملکوں میں پانی کی تقسیم کا ایک فارمولا طے پایا جس کی پاسداری ہر قسم کے حالات میں کی جاتی رہی۔ تاہم کچھ برسوں سے یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بھارت ایک منظم سازش کے تحت سندھ طاس معاہدے کو کمزور اور غیر مؤثر کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔

بھارت کے یہ اقدامات جنہیں بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا قرار دینا چاہیے‘ علاقائی امن اور استحکام کیلئے غیر معمولی خطرہ ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کی رُو سے پاکستان کیلئے طے شدہ حصے میں کمی‘ پانی کے بہاؤ پر اثر انداز ہونے اور اچانک اتار چڑھاؤ کے ہتھکنڈے اور دریائی پانی کو متعصبانہ سیاست کا آلہ کار بنانے کی کوششیں بلاشبہ علاقائی خطرات میں اضافے کی ایک قابلِ غور اور تشویشناک وجہ ہیں۔ بھارت آبی جارحیت ہر دو صورتوں میں پاکستان میں بحران کا سبب بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چناب اور جہلم یا ان میں سے کسی ایک دریا کے پانی کو روکنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ آبادی والے وسطی علاقے‘ جو زرعی اعتبار سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک کیلئے خوراک کی ٹوکری قرار دیے جا سکتے ہیں‘ پانی کی کمی سے غیر معمولی طور پر متاثر ہو سکتے ہیں اور ملک میں پانی کے علاوہ خوراک کا بحران بھی سر اٹھا سکتا ہے۔ دوسری صورت میں‘ اگر بھارت دریائے چناب پر تعمیر شدہ آبی ذخائر سے ذخیرہ شدہ پانی چھوڑتا ہے تو پنجاب کے وسطی علاقوں میں سیلابی صورتحال شدید تباہی لا سکتی ہے‘ جیسا کہ اس سال کے سیلابو ں کے دوران ہوا۔ سندھ طاس آبی وسائل کی جانب بھارتی سازشوں کو اس لیے نظر انداز کرنا مزید ممکن نہیں کہ ماضی کی طرح ڈھکے چھپے انداز سے نہیں بلکہ اب واضح طور پر بھارت آبی جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے اور اس حوالے سے بھارتی وزیراعظم سمیت متعدد عہدیداروں کے دھمکی آمیز بیانات ریکارڈ پر ہیں۔
اس بیان بازی کو سیاسی شعبدہ بازی کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ علاقائی امن اور استحکام کیلئے اس سازش کا توڑ کرنے کیلئے جو کچھ ممکن ہے‘ کیا جانا ضروری ہے۔ حالیہ دنوں دریائے چناب کے پانی میں اچانک کمی بھارت کی انہی جارحانہ حرکتوں کا ایک ثبوت ہے۔ اس دوران دریائے چناب کے پانی میں اچانک اور غیرمعمولی تبدیلیاں ریکارڈ کی گئیں۔ وزارت آبی وسائل کے مطابق 10 سے16 دسمبرتک چناب میں گزشتہ 10سال کی تاریخی سطح سے کہیں کم بہاؤ ریکارڈ ہوا اور کم ترین بہاؤ 870کیوسک تک گر گیا تھا۔ پاکستان کی جانب سے ارسا کے فورم کو بروئے کار لاتے ہوئے بھارت سے اس غیر معمولی کمی پر جواب طلب کیا گیا ہے۔ بھارت کا جواب جو بھی ہو مگر دریائی پانی کے بہاؤ پر اثر انداز ہونے کی بھارتی حرکتیں اور دریائی پانی کی تقسیم کے معاہدے کو ناکام بنانے کی سازشیں بڑے آبی بحران اور علاقائی سطح پر بڑے تنازعے کا سبب بن سکتی ہیں۔