اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

طالبان اوردہشت گردی

چیف آف آرمی سٹاف و چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے قومی علما ومشائخ کانفرنس میں ملک وقوم کو درپیش چیلنجز‘ قومی سلامتی کے امور‘ جنگی تیاریوں اور اقوامِ عالم میں پاکستان کے ابھرتے کردار پر مفصل گفتگو کی۔ فیلڈ مارشل کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کی پشت پناہی سے دہشت گردی کے ذریعے ہمارے معصوم شہریوں اور بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ فتنہ الخوارج کی جو تشکیلیں افغانستان سے آتی ہیں ان میں 70 فیصد افغان شامل ہیں۔ یہ الفاظ ان سکیورٹی خطرات کو واضح کرتے ہیں جو افغانستان کی جانب سے پاکستان کو درپیش ہیں۔ یہ سکیورٹی چیلنج ایک طویل مدت سے موجود ہے کیونکہ افغانستان کی سابق حکومتوں کے دوران بھی کابل اور پاکستان کی سرحد کے ساتھ ملنے والے بڑے شہروں میں بھارتی خفیہ اداروں کی سرپرستی میں دہشت گردوں کے اڈے فعال تھے‘ مگر 2021ء میں طالبان کی واپسی کے بعد بھی یہ صورتحال بدستور جاری رہی۔ اس کا نتیجہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافے کی صورت میں سامنے آیا۔

غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں چھوڑا ہوا اسلحہ اور دفاعی آلات کی بڑی کھیپ بھی طالبان کے توسط سے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جس کے المناک نتائج ہم پاکستان میں دیکھتے آ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے تقریباً سبھی واقعات میں یہی اسلحہ اور سکیورٹی آلات استعمال ہو رہے ہیں۔ افغان رجیم کی پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں معاونت یہیں تک محدود نہیں بلکہ دہشتگرد گروہوں کو افرادی قوت کی فراہمی بھی مسلسل جاری ہے۔ جیسا کہ چیف آف ڈیفنس فورسز نے علما ومشائخ کانفرنس میں بتایا کہ ملک عزیز میں دہشت گردی کے 70 فیصد واقعات میں افغان شہری ملوث ہیں۔ اس کا مطلب پاکستان میں دہشتگردی پوری طرح افغان سرپرستی اور اعانت کے ساتھ ہو رہی ہے۔ نہ صرف اسلحہ بلکہ افرادی قوت بھی افغانستان سے فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود ڈھٹائی کا یہ عالم کہ پاکستان کی جانب سے حکومتی اور سفارتی سطح پر مسلسل شکایات کے باوجود افغان رجیم نے پاکستانی تشویش کو مان کر نہیں دیا اور مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال مٹول کی۔

پاکستان کی جانب سے سرکردہ علما کے وفود بھی بھیجے گئے مگر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ لیکن اب صورتحال ماضی کی طرح نہیں ہے۔ پاکستان افغانستان کی جانب سے درپیش خطرات کو ختم کرنے کا تہیہ کر چکا ہے۔ اسلام آباد سے کابل کی عبوری حکومت کو اب مختلف لہجے میں پیغام پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ افغانستان کو فتنہ الخوارج اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ ان حالات میں علما ومشائخ سے اجلاس کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ علما پاکستان اور افغانستان‘ دونوں ملکوں میں غیر معمولی طور پر اہم ہیں اور عوام کی فکری تربیت اور اصلاح میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کابل میں افغانستان کے ایک ہزار کے لگ بھگ سرکردہ علما کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد میں اس بات کا عہد کیا گیا کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی‘ قرارداد میں طالبان کی عبوری حکومت سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک جا کر لڑنے والے افغان شہریوں کو روکے۔ پاکستان میں عوامی‘ مذہبی حلقوں اور حکومت کی جانب سے اس قرارداد کو مثبت اور خوش آئند قرار دیا گیا۔

ان حالات میں پاکستانی علما ومشائخ کو بھی بروئے کار آنا چاہیے اور ملکی سلامتی کو فتنہ الخوارج کی جانب سے درپیش خطرات کو اجاگر کرنے کیلئے اپنے تعلقات اور اثر ورسوخ کو استعمال کرنا چاہیے۔ دو ہمسایہ ملک جو دینی اور ثقافتی ولسانی رشتوں سے منسلک ہیں‘ کو ایک دوسرے کیلئے معاون ومعین ہونا چاہیے نہ کہ روایتی دشمن۔ پاکستان کی جانب سے ایسا کبھی نہیں سوچا گیا بلکہ پاکستان کے ایثار کی مثال سب کے سامنے ہے۔ معاملات افغانستان کی جانب سے بگڑے ہیں‘ انہیں اصلاح کرنا ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں