اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سفارتی اعتماد اور پاکستان

امریکی جریدے میں پاکستان سے متعلق شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ عالمی افق پر ملکِ عزیز کیلئے وسیع ہوتے امکانات کو ظاہر کرتی ہے۔ مشہور سفارتی جریدے دی دپلومیٹ میں شائع شدہ رپورٹ میں پاکستان کو عالمی توجہ کا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ 2025ء کا سال پاکستان کیلئے تذویراتی واپسی اور عسکری وسفارتی اعتماد کی بحالی کا سال ثابت ہوا ہے۔ عسکری قیادت نے ریاستی سطح پر انتہا پسندی کے خلاف واضح اور مضبوط پیغام دیا اور پاکستان نے ریاستی مفادات کا بھرپور تحفظ کیا۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ معرکۂ حق‘ جس میں مددِ ایزدی کا عسکری و سیاسی قیادت اعتراف بھی کرتی ہے‘ پاکستان کیلئے عالمی سطح پر امکانات کے افق کو وسیع تر کرنے کا سبب بنا ہے۔

بھارت کیساتھ مئی کی فوجی جھڑپوں میں پاکستانی افواج کی کارکردگی نے نہ صرف خطے کے عسکری توازن کو واضح کر دیا بلکہ داخلی چیلنجز اور محدود وسائل کے باوجود افواجِ پاکستان نے جس مؤثر ردِعمل کا مظاہرہ کیا‘ اس سے دنیا پر اپنی پیشہ ورانہ قابلیت اور اہلیت بھی ثابت کر دی۔ عسکری میدان میں اس کامیابی نے پاکستان کا عالمی سطح پر اعتماد بحال کیا‘ پاک امریکہ تعلقات میں واضح بہتری آئی جبکہ واشنگٹن کے بھارت سے تعلقات پر دباؤ آیا۔ امریکی صدر ٹرمپ کی نئی خارجہ پالیسی میں واشنگٹن میں طاقت کا توازن پاکستان کے حق میں پلٹنے لگا۔ پاکستان ایک بار پھر امریکہ کا قابلِ قدر اور مؤثر شراکت دار بن کر ابھرا۔ دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کو ایک مضبوط دفاعی شراکت کار کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ سعودی عرب کیساتھ مشترکہ دفاع کا معاہدہ ہوا۔ ایفرو عرب خطے میں بھی پاکستان ایک بڑا عسکری مرکز بن کر ابھرا اور حال ہی میں لیبیا کیساتھ ہونیوالے اربوں ڈالر کے معاہدے اس حقیقت کا اظہار ہیں۔ عسکری شعبے میں اعتماد سے عالمی سیاسیات میں بھی پاکستان کا کردار وسیع ہوا۔ غزہ جنگ بندی اور پائیدار امن سے متعلق عالمی کوششوں میں پاکستان کو اہم فریق تسلیم کیا گیا۔

پورے خطے میں پاکستان کا اثر ورسوخ بڑھا۔ داخلی سطح پر معاشی مشکلات کے باوجود اصلاحاتی اقدامات پر تعاون کی راہ ہموار ہوئی اور پاکستان کو اس بدلی ہوئی عالمی فضا سے فائدہ اٹھا کر اقتصادی استحکام کا موقع بھی میسر آیا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں اب طاقت کے محور‘ عالمی اشتراک اور باہمی تجارت کے معاہدے تبدیل ہو رہے ہیں۔ آج کی دنیا روایتی تعلقات اور دوستی کے نظریات کے بجائے ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصول کو مقدم رکھتی ہے۔ آج دنیا میں نئے اتحاد اور تجارتی بلاکس وجود میں آ رہے ہیں‘ اس پس منظر میں پاکستان کیلئے عالمی امکانات کا وسیع ہوتا افق ایک پُرکشش موقع بھی ہے اور ایک سخت امتحان بھی۔ پُرکشش موقع اس طرح کہ ہم ان امکانات سے اپنے لیے کیا کشید کر پاتے ہیں۔ عالمی سطح پر بہتر ہوئی ملکی ساکھ سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں‘ کون سے ایسے اقدامات کرتے ہیں جن سے ملک و قوم کی دیرپا بہتری کے امکانات روشن ہو سکیں۔

دوسری جانب یہ امکانات ایک سخت امتحان بھی ہیں کہ ماضی میں بھی ہمیں ایسے نادر مواقع میسر آئے مگر غیر مخلص قیادت نے یہ مواقع ضائع کر دیے اور کوئی ایسا قابلِ ذکر اقدام نہ کیا جا سکا جس سے ملک وقوم کو فائدہ پہنچتا۔ آج ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے اور عالمی سطح پر روشن ان امکانات کو داخلی استحکام‘ ادارہ جاتی اصلاحات اور دیر پا معاشی و تجارتی معاہدوں کیلئے بروئے کار لانا ہے۔ اگر اب بھی ان مواقع سے کماحقہٗ فائدہ نہ اٹھایا جا سکا تو شاید ایسے امکانات آئندہ کئی دہائیوں تک دوبارہ اجاگر نہ ہو سکیں۔ آج ہم پھر ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ اب مفاداتی سیاست میں اُلجھ کر اس عسکری وسفارتی اعتماد کو ضائع نہیں کرنا بلکہ ایسی راہ کا تعین کرنا ہے جو ملک و ریاست کیلئے بھی سودمند ہو اور عوام کیلئے بھی یہ مواقع ثمر آور ثابت ہو سکیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں