تازہ اسپیشل فیچر

برونائی: جہاں کوئی انکم ٹیکس نہیں دیتا

لاہور: (خاور نیازی) دنیا کے بیشتر ممالک کی معیشتیں لڑکھڑا رہی ہیں، کہیں عالمی وباء کو ان کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے تو کہیں موسمی تغیرات اور سیلاب کو، بیشتر ممالک دنیا بھر میں بلند ہوتی تیل گیس کی قیمتوں کو جبکہ یورپ سمیت بیشتر ایشیائی ممالک ہچکولے کھاتی معیشت کو روس، یوکرائن جنگ سے جوڑتے ہیں لیکن دنیا کے نقشے میں پانچ لاکھ نفوس سے بھی کم آبادی اور 5 ہزار 765 مربع کلومیٹر کا چھوٹا سا ایک ایسا اسلامی ملک بھی ہے جس پر نہ تو کورونا اور روس یوکرائن جنگ اور نہ ہی عالمی مہنگائی اثر انداز ہو سکی ہے، یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس ملک میں غریب نہ ہونے کے برابر ہیں۔

جنوب مشرقی ایشیاء میں جزیرہ بورنیو کے شمالی ساحل پر واقع اس ملک کی سرحدیں ملائیشیا اور انڈونیشیا سے ملتی ہیں، جی ہاں یہ چھوٹا سا امیر اسلامی ملک برونائی ہے جو دنیا کے چوتھے امیر ترین ملک کا اعزاز رکھتا ہے، برونائی تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے ’’پیٹرو سٹیٹ ‘‘ (یعنی ایک ایسی ریاست جس کی معیشت کا دارومدار تیل اور گیس کی آمدن پر منحصر ہو) کہلاتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ خام تیل اور قدرتی گیس سے مالا مال اس ریاست کے جی ڈی پی کا 90 فیصد حصہ تیل اور گیس کی آمدن سے حاصل ہوتا ہے، 2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق برونائی میں گزشتہ سال کے اختتام تک اس کے پاس 1100 ملین بیرل سے زائد خام تیل کے ذخائر موجود تھے جبکہ اس ملک کے پاس قدرتی گیس کے 2.6 کھرب کیوبک میٹر ذخائر دستیاب ہیں۔

خوشحال ریاست
برونائی جو برطانیہ کی ایک کالونی ہوا کرتا تھا اس نے 1984ء میں برطانیہ سے باقاعدہ آزادی حاصل کی، جنوب ایشیائی ریاستوں میں برونائی انسانی ترقی میں سنگاپور کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے اور اسے ایک ترقی یافتہ ملک مانا جاتا ہے، آئی ایم ایف کے مطابق برونائی فی کس قوت خرید کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے جبکہ برونائی کا قرض تناسب مجموعی قومی آمدن کے مقابلے میں تقریباً صفر ہے، برونائی میں ’’ سکول آف اورینٹیئل اینڈ افریقن سٹڈیز‘‘معاشیات کے ایک پروفیسر الریچ وولزکہتے ہیں ’’برونائی پر برائے نام قرض ہے اور ملکی خوشحالی کی وجہ ہائیڈرو کاربن کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن ہے۔

اس صورتحال کے باعث برونائی نے وقت کے ساتھ ملک میں بڑے مالی ذخائر قائم کئے ہیں جو مشکل حالات میں حکومت کو مالی اعانت فراہم کرتے ہیں اور حکومت کو قرض لینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی‘‘۔ آگے چل کر پروفیسر وولز کہتے ہیں اپنے فوسل فیول کی برآمدات کی بدولت برونائی ایک بڑا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رکھتا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ملک باقی دنیا کے لئے خالص قرض دہندہ ہے مگر دوسری جانب اسے قرض لینے کی ضرورت ہی نہیں ہے، مختصراً برونائی اپنے تیل کی بدولت غیر ملکی قرضوں سے پاک ایک بے مثال ملک ہے جو اپنے بینکوں اور حکومتی خزانے کیلئے بھاری آمدن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اتنی مضبوط معیشت جو یہاں کے ہر دلعزیز سلطان حسن البلقیہ کے دور رس ویژن کے مرہون منت ہے کہ انہوں نے اس کے ثمرات عوام میں نچلی سطح تک پہنچانے میں کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیا، بنیادی ضروریات زندگی کی تمام سہولتیں انہیں گھر کی دہلیز پر ملتی ہیں، ان میں یونیورسٹی تک مفت تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کے علاوہ ضرورت مندوں کو سرکاری سکیموں کے ذریعہ مکان اور مکان بنانے کیلئے مفت زمین کی فراہمی، صرف یہی نہیں بلکہ اس لحاظ سے برونائی شاید دنیا کا پہلا ملک ہوگا جس کے شہری انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

امیر ترین سربراہ مملکت
برونائی دنیا کا چوتھا امیرترین ملک تو ہے ہی لیکن یہاں کے حکمران سلطان حسن البلقیہ کی دولت اور شان و شوکت کے چرچے پوری دنیا میں گردش کرتے رہتے ہیں، جہاں ان کی دولت کا کوئی پیمانہ ہی نہیں ہے وہیں ان کے محلات بارے کہا جاتا ہے کہ 1788 کمروں پر مشتمل سونے ، چاندی اور انمول ہیروں سے مزین ان کا محل اپنی مثال آپ ہے، ان کی عمارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 110 کاروں کی گنجائش والے گیراج میں دنیا کی قیمتی ترین گاڑیاں ہر وقت موجود رہتی ہیں جبکہ سلطان کے ذاتی استعمال کے لئے ایک عدد 747 جمبوجیٹ بھی موجود ہے جس کی قیمت ایک اندازے کے مطابق 100 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے، آرائش اور آسائش کے لحاظ سے یہ دنیا کا خوبصورت اور منفرد ترین جہاز ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سلطان کی ذاتی دولت کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ ان کی دولت ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ بڑھ رہی ہوتی ہے، محققین اس کی وضاحت آسان الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں کہ ان کی دولت میں ہر گزرتے سیکنڈ میں 90 یورو کا اضافہ ہوتا ہے، باالفاظ دیگر ہر ایک دن میں ان کی دولت میں تقریباً 78 لاکھ یورو کا اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔

برونائی کی تاریخ
977 عیسوی میں برونائی کو ’’ پونی ‘‘ کہا جاتا تھا، 1225ء تک برونائی نے بہت سارے نشیب و فراز دیکھے، وقت کے ساتھ ساتھ اس مختصر سی ریاست پر مختلف طاقتیں قابض ہوتی رہیں، جس کی وجہ سے برونائی ریاست دن بدن کمزور ہوتی گئی، 1371 کی ایک چینی رپورٹ کے مطابق ’’پونی ایک انتہائی غریب ریاست تھی، جس پر ماجا پاہٹ کا مکمل قبضہ تھا ‘‘۔

15 ویں اور 17 ویں صدی کے درمیان برونائی نے خوب ترقی کی اور اس عرصہ کے دوران شمالی برونائی سے فلپائن تک ان کی حکومت تھی اور رفتہ رفتہ یہاں اسلام پھیلنا شروع ہو چکا تھا، 15 ویں صدی کے دوران مالے سے سلطان نامی مسلمان شخصیت آئی اور انہوں نے اسلام پھیلانے کیلئے یہاں کوششیں جاری رکھیں، بنیادی طور یہ تیل کے ایک تاجر تھے، انہوں نے برونائی میں فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مساجد بھی تعمیر کرائیں۔

تیرہویں اور چودہویں صدی تک چینیوں کا عمل دخل اس سلطنت کے ساتھ زیادہ رہا اس لئے یہاں کے مسلمانوں کی تعداد جو 64 فیصد تک ہے، کا تعلق بنیادی طور پر چین ہی سے ہے، 16 ویں صدی تک یہاں اسلام اپنی جڑیں مضبوط بنا چکا تھا، اسی دوران 1578ء میں ایک ہسپانوی سیاح الونسو بیلتران نے اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا کہ ’’برونائی میں پانی کے اوپر ایک خوبصورت پانچ منزلہ عمارت بنائی گئی ہے جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ‘‘۔

جولائی 1864ء میں برطانیہ نے برونائی پر حملہ کر دیا، چنانچہ 1880ء میں سلطان برونائی نے جیمز بروک کو ساراوک کا علاقہ سونپ دیا اور جیمز یہاں کا سربراہ بن بیٹھا، یہاں برطانیہ رفتہ رفتہ اپنا عمل درآمد بڑھاتا چلا گیا، حتی کہ 1906ء میں برطانیہ اور برونائی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت یہاں پر برطانوی باشندوں کو لا کر آباد کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ برونائی کے اہم حکومتی عہدوں کو برطانوی شمولیت سے مشروط کر دیا گیا۔

برطانیہ کو برونائی پرجاپانی قبضہ کا خطرہ تو تھا ہی لیکن وہ یورپ میں جنگ کی وجہ سے برونائی کا دفاع نہ کرسکا اور یوں برونائی پر جاپان قابض ہو گیا، 10 جون 1945ء کو امریکی ہوائی اور بحری فوج کی مدد سے آسٹریلیا کی فوج نے حملہ کر کے برونائی کو جاپان سے آزادی دلائی لیکن 10جولائی 1946ء تک برونائی پر برطانیہ کا قبضہ برقرار رہا، جنگ عظیم دوئم کے بعد برطانیہ نے برونائی میں فوجی حکومت بنائی جس میں آسٹرلیا کے فوجی بھی شامل تھے، 1959ء میں نئے آئین میں برونائی کو خود مختار حکومت دے دی گئی تاہم خارجہ امور، دفاع اور انتظامی امور بدستور برطانیہ کے پاس رہے، یکم جنوری 1984ء کو برونائی نے برطانیہ سے مکمل آزادی حاصل کر لی۔

خاور نیازی لاہور میں مقیم ایک سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں، تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں۔