تازہ اسپیشل فیچر

ڈیبیٹ ایبل لینڈ….لاقانونیت اور جرائم کا گڑھ

لاہور: (خاور نیازی) آج کے دور میں کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے شہریوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہو کہ وہ کسی بھی شخص کو نہ صرف قتل کر سکتے ہیں بلکہ اسے لوٹ سکتے ہیں اور اسے تباہ بھی کر سکتے ہیں ؟

حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ’’اجازت نامہ‘‘ جو ایک فرمان کی شکل میں تھا اسے ایک پارلیمانی حکم کے بعد ایک قانون کا درجہ حاصل ہو گیا تھا، سولہویں صدی کے وسط میں انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کی حکومت کی جانب سے جاری اس پارلیمانی فرمان کے الفاظ کچھ اس طرح سے تھے ’’انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے لوگ کسی کو لوٹنے، جلانے، تباہ کرنے یا قتل کرنے کا پورا پورا اختیار رکھتے ہیں، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی‘‘۔

’’ڈیبیٹ ایبل‘‘ کے نام کی شناخت رکھنے والا یہ علاقہ 13 ویں اور 16 ویں صدی کے دوران تین سو سالوں تک لاقانونیت اور جرائم کا گڑھ بنارہا، لفظ ’’ڈیبیٹ ایبل لینڈ‘‘ بنیادی طور پر انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے اس خود مختار علاقے بارے گھڑی گئی وہ اصطلاح اور اختراع ہے جو ہر قسم کے جرائم کے گڑھ کی وجہ سے کسی کے قابو نہ آنے والے ایک سرکش اور اڑیل گھوڑے کی مانند تھا، اس خطے کی بد قسمتی یہ تھی کہ اسے نہ تو انگلینڈ اور نہ ہی سکاٹ لینڈ اپنا حصہ تسلیم کرتے تھے، اس کی متعدد وجوہات تھیں۔

سب سے بڑی وجہ اس علاقے کا جرائم کا گڑھ ہونا تو تھا ہی لیکن اس کے علاوہ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ علاقہ اپنے خددو خال کی وجہ سے کسی کیلئے کارآمد نہیں تھا، اس کی زمینیں کاشتکاری کے لائق تھیں نہ ہی زمینوں کو کسی اور مصرف میں لایا جاسکتا تھا، یہی وہ بنیادی نقطہ تھا جس کی خاطر کوئی بھی فریق اتنے پر خطر علاقے کی ذمہ داری لینے کی ہمت نہیں کرتا تھا، مورخین کے مطابق اس پارلیمانی حکم نامے کی وجہ دراصل ذمہ داری سے بچنے کی کوشش تھی کیونکہ کوئی فریق اس علاقے کی ذمہ داری لینے کیلئے تیار نہ تھا۔

’’ڈیبیٹ ایبل لینڈ‘‘ جرائم کا گڑھ کیسے بنا؟
یوں تو یہ علاقہ چھوٹی موٹی وارداتوں کی وجہ سے ہمیشہ ایک متنازعہ علاقہ رہا ہے لیکن جرائم کا گڑھ اور نو گو ایریا بننے میں سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان پہلی بار سرحدوں کا تعین تھا، 1237ء میں انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے درمیان ’’ٹریٹی آف یارک ‘‘کے تحت پہلی بار سرحدوں کا بٹوارہ ہوا، جب یہ بٹوارہ اختتام کو پہنچا تو معلوم ہوا کہ مختلف خاندانوں کی جائیدادوں کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی گئی ہے،جس کی رو سے متعدد خاندان اپنی جائیدادوں کا کثیر حصہ کھو بیٹھے تھے۔

شروع شروع میں لوگوں نے ہلکا پھلکا احتجاج کیا جو رفتہ رفتہ بغاوت کی صورت اختیار کرتا چلا گیا، چنانچہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق یہاں کے زور آور خاندانوں نے سرحد کے آر پار لوٹ مار کرنا شروع کر دی، دونوں ملکوں میں سے کوئی بھی اس ملک کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کیلئے تیار تھا نہ یہاں اپنے وسائل خرچ کرنے پر تیار تھا، جس کے سبب رفتہ رفتہ یہ علاقہ ’’نو گو ایریا‘‘ کی شکل اختیار کر کے جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بنتا چلاگیا، ان جرائم پیشہ افراد کو سرحدی ڈاکو کہا جانے لگا جنہیں مقامی لوگ ’’ بارڈر ریورز‘‘ کہتے تھے۔

’’بارڈر ریورز‘‘ نے سرحد کے آر پارمویشی چرانے سے اپنی منفی سرگرمیوں کا آغاز کیا، ان کے حوصلے بڑھے تو انہوں نے رفتہ رفتہ بڑی بڑی چوریاں اور ڈاکے ڈالنا شروع کر دئیے،مورخین کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا آیا کہ ’’ڈیبیٹ ایبل لینڈ‘‘ ایسا ملک بن گیا جہاں ان کے اپنے اصول اور قانون تھے، یہ لوگ اس قدر طاقت ور اور بے خوف ہو چکے تھے کہ پورے برطانیہ میں جب چاہتے اور جہاں چاہتے لوٹ مار کے ساتھ ساتھ خونی کارروائیاں کر گزرتے‘‘، مورخین کہتے ہیں اس طرح کی سرگرمیاں کسی بڑی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں، اس لئے یہاں بھی صورتحال ایسی ہی تھی اور ان حملہ آوروں کو بڑے بڑے مقامی سرداروں کی پشت پناہی حاصل ہوا کرتی تھی۔

’’بارڈر ریورز‘‘ کی طاقت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی سب سے زیادہ خونی کارروائیاں انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے ایسے علاقوں میں ہوتی تھیں جن کے بارے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہاں کسی کی دراندازی ممکن ہے، اس بڑھتی لاقانونیت اور بے چینی نے بالآخر اشرافیہ کو اس مسئلہ کا حل نکالنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔

یوں 1551ء میں پہلی مرتبہ سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ ایک معاہدے تک آن پہنچے جس کی رو سے دونوں ملکوں کی سرحدوں پر ’’سکاٹ ڈائیک‘‘ کی تعمیر کے ایک منصوبے پر غور شروع ہوا، جس کی رو سے 1552ء میں ہمیشہ کیلئے دونوں ملکوں کی سرحدوں کی نشاندہی کر کے اس پر تقریباً پانچ کلومیٹر لمبے پشتے تعمیر کئے گئے جس سے عملاً ’’ڈیبیٹ ایبل لینڈ‘‘ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔لیکن اشرافیہ کو اس وقت سخت دھچکا لگا جب ’’بارڈر ریورز‘‘ کی کارروائیوں میں ذرہ برابر بھی فرق نہ پڑا اور ان کے حملے جوں کے توں جاری رہے۔

اس صورتحال پر اکثر محققین کہتے ہیں کہ ’’جب تک کسی مخصوص علاقے کی ذمہ داری کوئی ملک قبول ہی نہ کرے تو شکوہ کس سے کر سکتے ہیں اور ویسے بھی ’’بارڈر ریورز‘‘ اس بے لگام گھوڑے کی مانند تھے جن کے نہ تو کوئی اصول اور ضابطے تھے اور نہ کوئی منزل تھی‘‘۔

1603 عیسوی میں سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کی حکومتیں ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھے اور یوں پہلی مرتبہ دونوں ملکوں کے درمیان الحاق ہوا تو برطانیہ کی بادشاہت کی توجہ سرحدی کارروائیوں پر مرکوز ہوئی، قانون کی عمل داری کو فعال بنانے کیلئے سرحدی سرگرمیوں اور حملوں پر نظر رکھنے کیلئے سرحدی فوج میں اضافہ کیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ علاقے کو چوروں اور ڈاکوؤں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئے بڑے بڑے رسہ گیروں اور سہولت کاروں کو پکڑ کر پھانسی پر لٹکادیا اور بیشتر کو ملک بدر کر دیا گیا۔

سکاٹ لینڈ کی لوٹ مار اور قتل و غارت میں یہاں کے سرداروں کا کلیدی کردار رہا ہے، 1603ء کے بعد انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ نے امن و امان کے قیام میں جہاں ڈاکوؤں کا پیچھا جاری رکھا وہیں انہوں نے علاقے کے سرداروں کی سرگرمیوں پر بھی کڑی نظر رکھی، مورخین کہتے ہیں ’’ڈیبیٹ ایبل لینڈ‘‘ کی سرگرمیوں کی تاریخ لینگ سینڈی کے ذکر کے بغیر نامکمل رہتی ہے۔

چھ فٹ قامت کے سردار لینگ سینڈی جس کا اصل نام الیگزینڈر آرمسٹرانگ تھا سولہویں صدی کے سکاٹ لینڈ کا ایک طاقتور سردار تھا، یہ ایک رعب اور دبدبے کی شخصیت کا مالک تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ علاقے کا کوئی بھی اچھا یا برا کام اس کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ اس پورے علاقے میں اس کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

1610ء میں لینگ سینڈی نے برطانیہ کے بادشاہ کی طرف سے علاقے میں قانون نافذ کرنے کی کوششوں کی سخت مخالفت اور مزاحمت کی جس کی پاداش میں اسے 1610ء میں اپنے گیارہ بیٹوں سمیت پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا، صرف یہی نہیں بلکہ بہت سارے ’’بارڈر ریورز‘‘ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔

خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔