تازہ اسپیشل فیچر

سلگتی آگ کی جھیل

لاہور: (خاور نیازی) ہم نے اور آپ نے آج تک پانی کی جھیلوں بارے تو بہت کچھ سن رکھا ہوگا اور دیکھ بھی رکھا ہو گا لیکن بہت ممکن ہے کہ آپ نے آج تک کسی ’’آگ کی جھیل‘‘ بارے نہ سنا ہو۔

کہتے ہیں کہ ایک مغربی ملک کے آتش فشانی علوم کے ماہر بینوئیٹ سیمٹز جب اس جھیل کو دیکھنے آئے تو دیکھتے ہی بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا کہ ایسے لگ رہا ہے جیسے شیطان کی ہانڈی میں سوپ ابل رہا ہو‘‘، وسطی افریقی ملک جمہوریہ کانگو کے علاقے گوما میں گزشتہ 22 سالوں سے ’’کوہ نیرا گونگو‘‘ نامی یہ آتش فشاں مسلسل پھوٹ رہا تھا۔

نیرا گونگو پہلی دفعہ نہیں پھوٹا، 1977ء میں یہ پہلی مرتبہ رات کو اس وقت پھوٹ پڑا تھا جب حسب معمول لوگ اپنے کاروبار زندگی کے امور نمٹا کر خواب استراحت کی حالت میں تھے، آدھی رات کے وقت 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے لاوے کے ایک طوفان نے قریب کی آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، سرکاری ذرائع نے اگلی صبح 60 ہلاکتوں کا اعلان کیا جبکہ غیر جانبدار ذرائع نے ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی تھی۔

اس کے بعد 2002ء میں ایک بار پھر اسی مقام پر گوما شہر کے قریب آتش فشاں پھوٹ نکلا جو پہلے کے مقابلے میں زیادہ سنگینی سے نمودار ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے سارا لاوا شہر بھر میں پھیل گیا جس سے آن کی آن میں 150 سے 200 افراد لقمہ اجل بن گئے اور 15 فیصد شہر تباہ ہوگیا جبکہ ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے، یہی وجہ ہے کہ اسے دنیا کے سب سے زیادہ متحرک آتش فشانوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا، یہ ایک سلگتی جھیل کی شکل اختیار کر گیا۔

آتش فشانی علوم کے ماہرین متفقہ طور پر نیرا گونگو میں دہکتی آگ کے اس گڑھے کو دنیا کے متحرک آتش فشاؤں کا سب سے بڑا گڑھا قرار دیتے ہیں، آگ کے اس غیر معمولی دہکتے گڑھے کی چوڑائی 260 میٹر جبکہ اس کی گہرائی 700 میٹر تک بتائی جاتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس گڑھے میں تقریباً 60 لاکھ کیوبک میٹر ابلتا ہوا لاوا موجود رہتا ہے، نیرا گونگو کی آتش فشانی چٹان کی بلندی 3450 میٹر ہے، ماہرین نے کچھ عرصہ پہلے انکشاف کیا تھا کہ اس آتش فشانی چٹان اور اس سے ملحقہ چٹانوں کا درجہ حرارت ایک ہزار ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔

اس آتش فشاں کا لاوا جب پھٹتا ہے تو اس آتش فشاں کی گہرائی کے مرکز سے قدرتی طور پر گیسوں کا اخراج ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ لاوا ٹھنڈا ہو کر دوبارہ گرم ہونے لگتا ہے، چنانچہ ماہرین کہتے ہیں لاوے کے اس بار بار گرم اور سرد ہونے کے عمل کے نتیجے میں بعض اوقات یہ گییس دھماکے کی شکل میں لاوے کو فضا میں چالیس فٹ تک بلند کر دیتی ہیں، جو بذات خود ہر لمحہ سروں پر منڈلانے والا ایک خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔

یہ دہکتا آتش فشاں گوما شہر سے صرف 18 کلومیٹر کی دوری پر اُبل رہا ہے جبکہ دوسری طرف یہ روانڈا کی سرحد کے بھی کافی قریب ہے، کچھ عرصہ پہلے ’’نیشنل جیوگرافک‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک مقامی باشندہ بتا رہا تھا ’’اگرچہ پچھلے کئی عشروں سے ہم اس خوفناک صورتحال کو متواتر دیکھتے آ رہے ہیں، اس کے عادی بھی ہوگئے ہیں تاہم، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے، یہ وہ ننگی تلوار ہے جو مسلسل ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے، اس لئے اس شہر کے لوگ خوفزدہ تو ہیں لیکن وہ اپنے معمولات زندگی کو آخر کب تک ترک کر سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ایک اور شہری کہہ رہا تھا اگر ہم نتائج کی پرواہ کریں گے تو ہم کچھ بھی نہیں کر سکیں گے اس لئے اب ہم نے حالات کے ساتھ سمجھوتا کرنا سیکھ لیا ہے، ہاں ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہاں تحقیق دان آتے ہیں، میڈیا کے لوگ آتے ہیں، کوہ پیما اور سیاح بھی اب تو کثرت سے آتے ہیں جس سے نہ صرف ہمارے روزگار کے ذرائع بڑھتے ہیں بلکہ ہمیں اس علاقے کے تحفظ بارے آگاہی بھی ہوتی رہتی ہے۔

سیاحوں کو لاوے کی جھیل تک پہنچنے کیلئے کانگو کی سرحد کے اس پار روانڈ سے ہو کر آنا پڑتا ہے، یہ ایک پر خطر مہم جوئی ہے کیونکہ صرف آٹھ کلومیٹر کے اس فاصلے میں ڈیڑھ کلومیٹر کی مشکل ترین عمودی چڑھائی بھی ہے جسے عبور کرنے میں کم و بیش چھ سے سات گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

مقامی انتظامیہ کوہ پیماؤں کو آسانی سے اس مہم جوئی کی اجازت ایک تو اس کے خطرناک راستے کی وجہ سے نہیں دیتی دوسرا اس خطے میں سالوں سے جاری علاقائی تنازع کے باعث بھی یہ ایک پرخطر اور متنازع علاقہ تصور ہوتا ہے، مقامی انتظامیہ لوگوں کو گروہوں کی شکل میں اور مسلح رینجرز کی نگرانی میں مہم جوئی کی اجازت کو ترجیح دیتی ہے۔

جھیل سے جڑی مقامی توہمات
آتش فشاں سے جڑی توہمات تو یہ ظاہر کرتی ہیں یہ علاقہ کئی صدیوں سے آتش فشانوں کی زد میں رہتا ہوگا، یہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ جب پہاڑوں سے لاوا پھوٹتا ہے تو گویا یہ بری روحوں کی ناراضگی کی علامت ہے، چنانچہ یہاں کے لوگ فوراً عبادت کرنے لگتے ہیں، ایسی روایات بھی ہیں کہ زمانہ قدیم میں ایسے موقعوں پر یہاں کے لوگ کنواری دوشیزاؤں کو آتش فشاں میں جھونک دیا کرتے تھے تاکہ ان کے مصائب ختم ہوں۔

آج بھی یہاں کے کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ دراصل یہ جہنم کی روحوں کا ٹھکانہ ہے، کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہ ایک دوسری دنیا کی طرف جانے کا راستہ ہے جہاں گناہ گاروں کی روحوں کو جلایا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ اس جھیل کو دوزخ کا دروازہ بھی کہتے ہیں۔

اس کے برعکس سرحد کے اس پار روانڈا میں موجود ایک دوسری پہاڑی ’’کاریسمبی‘‘ جو ایک غیر متحرک آتش فشاں ہے اور سارا سال برف سے ڈھکی رہتی ہے، یہ نیک روحوں کا ٹھکانہ تصور کی جاتی ہے، یہاں کے اکثر لوگ اپنے گناہ معاف کرانے کیلئے اس پہاڑی پر عبادات بھی کرتے ہیں، ایک اور روایت کے مطابق یہاں کے لوگ آتش فشاں کا لاوا پھوٹنے پر اپنے گھروں کے اندر قید ہو کر مسلسل کچھ دن عبادات کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ یہ مصیبت جلد ختم ہونے کی منت مانتے بھی نظر آتے ہیں۔

خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔