تازہ اسپیشل فیچر

رمضان المبارک کی روایات

لاہور: (خاور نیازی) ماہ رمضان کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے برکتوں والا مہینہ قرار دیا ہوا ہے اور اس کے اختتام پر انعام کے طور پر اللہ نے کل مسلم امہ کو باہم خوشیاں منانے کا موقع بھی عطا کیا ہے جسے عید الفطر کا نام دیا گیا ہے۔

رمضان کا اختتام عید کی خوشیوں کے آغاز سے ہوتا ہے، اس لئے دنیا بھر کے مسلمان رمضان کا آغاز بھی اپنی اپنی روایات کے مطابق کرتے آ رہے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان رمضان المبارک میں اپنی خوشی کا اظہار کیسے کرتے ہیں۔

عرب ممالک میں فانوس جلانے کی روایت
تمام عرب ممالک میں رمضان کے استقبال کیلئے فانوس اور لالٹین روشن کرنے کی روایت کئی صدیوں سے چلی آ رہی ہے، اس رسم کا آغاز مصر سے ہوا تھا لیکن اب یہ رسم پورے عرب خطے کی روایت بن چکی ہے، اس رسم کی روایت کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔

تاریخی کتب کے مطابق 358 ہجری میں رمضان المبارک کا پانچواں دن تھا جب فاطمی خلیفہ المعز الدین، مصر کے شہر قاہرہ میں داخل ہو رہے تھے، لوگوں کو چونکہ کئی روز سے خلیفہ کی آمد کا شدت سے انتظار تھا اس لئے صحرائے گیزہ تک مرد و زن، بچوں بوڑھوں سمیت ایک جم غفیر خلیفہ کے استقبال کیلئے ہاتھوں میں فانوس، لالٹین یا مشعلیں لئے کھڑا تھا، خلیفہ کے قافلے کی آمد رات کے وقت ہوئی اس لئے یہ منظر اس قدر سحر انگیز تھا کہ خلیفہ المعزالدین اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

معروف عرب مورخ تقی الدین مقریزی لکھتے ہیں کہ خلیفہ کو یہ طریقہ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے ہر سال رمضان میں چراغاں کا اہتمام کرنا شروع کر دیا، یہی نہیں بلکہ خلیفہ نے قاہرہ میں ایسے 500 ہنر مند جمع کر لئے تھے جو ہر سال رمضان کے استقبال کیلئے خصوصی طور پر گھروں اور مساجد کیلئے خصوصی فانوس تیار کرتے تھے، اس کے ساتھ ہی رمضان میں گلیوں، بازاروں، گھروں اور مساجد میں فانوس لگانے کا ایسا رواج شروع ہوا کہ رفتہ رفتہ پورے عرب خطے میں پھیلتا چلا گیا۔

بعض مورخین کے مطابق فاطمی خلیفہ الحکیم نے تو اپنے دور اقتدار میں خواتین کے رات کے وقت بغیر لالٹین گھروں سے نکلنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی، خواتین عام طور پر عبادات کیلئے بالخصوص رمضان میں مساجد یا مختلف گھروں میں جمع ہوتی تھیں اس لئے اکثر راستے فانوسوں سے روشن کئے جاتے تھے۔

مشرق وسطیٰ
مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک جن میں سعودی عرب، قطر، کویت، بحرین، سوڈان، ترکی، مصر اور شام شامل ہیں سحری کے اختتام اور افطاری کے وقت کا اعلان خالی توپ چلا کر کرتے ہیں، یہ صدیوں پرانی رسم اب بھی بیشتر عرب ممالک میں رائج ہے۔

تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ سحر و افطار کی اس منفرد رسم کا آغاز فاطمیہ کے دور سے یعنی 909 ھ سے 1171 ھ سے چلا آ رہا ہے جبکہ اس سے پہلے لوگ اذان کی آواز سے ہی روزہ سحر اور افطار کیا کرتے تھے، یہ لاؤڈ سپیکر کا دور نہیں تھا اس لئے آبادی میں اضافے کے پیش نظر اکثر لوگوں کو اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔

انڈونیشیا
انڈونیشیا کو یک سعادت حاصل ہے کہ بلحاظ آبادی یہ دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک ہے، یہاں پر جیسے ہی رمضان کا چاند نظر آتا ہے ڈرم بجاتے گروہ گلی محلوں میں نکل کھڑے ہوتے ہیں، ایثار اور قربانی پر مبنی گیت گاتے یہ گروہ شہر بھر کا چکر لگا کر لوگوں کو رمضان کی آمد کا پیغام دیتے چلے جاتے، انڈونیشیا ہی کے کچھ قدیم خطوں میں لوگ رمضان کا چاند دیکھتے ہی غسل کر کے اپنے ساتھ یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اس ماہ مقدس کے دوران خود کو گناہوں سے دور رکھیں گے۔

ترکی
ترکی میں رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی مسجدوں کو میناروں سمیت خوبصورت فانوسوں اور برقی قمقموں سے منور کر دیا جاتا ہے تاکہ یہ مینار دور سے واضح نظر آئیں، یہ مساجد پورا مہینہ یوں ہی روشن اور منور رہتی ہیں، ملک کے بیشتر علاقوں میں رمضان کا چاند نظر آتے ہی بچے ہاتھوں میں روشن مشعلیں اور لالٹین پکڑے ڈرم بجاتے ڈرمرز کے حصار میں گلی محلوں کا چکر لگاتے ہیں، یہاں سب سے دلچسپ بات یہ ہوتی ہے کہ ان ڈرمر نے قدیم عثمانی عہد کا لباس زیب تن کر رکھا ہوتا ہے۔

فلسطین
فلسطین کے لوگ رمضان کا استقبال بڑے جوش وخروش سے کرتے ہیں، رمضان کا چاند نظر آتے ہی نوجوان زبردست آتش بازی سے آسمان کو روشن کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنی آزادی کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت گھروں، محلوں، گلیوں اور مساجد کی صفائیوں اور تزئین و آرائش میں جت جاتے ہیں اور پورے شہر کو برقی قمقموں سے روشن کر دیتے ہیں، امسال فلسطینی حالت جنگ میں ہونے کے باعث رمضان کو سادگی سے منا رہے ہیں۔

متفرق مسلم ممالک
بیروت میں ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی گلی، محلوں، شاہراہوں اور چوکوں کو برقی قمقموں سے سجا دیا جاتا ہے، مراکش شاید ان چند ملکوں میں شمار ہوتا ہے جہاں زمانہ بدل جانے کے باوجود بھی لوگ ابھی تک گلیوں، محلوں میں گھوم پھر کر لوگوں کو سحری کیلئے جگاتے ہیں۔

قطر میں رمضان المبارک کا چاند دیکھتے ہی لوگ گھروں، کاروباری مراکز اور قومی عمارات کو قمقموں سے سجا دیتے ہیں۔

سوڈان میں سحری کے وقت جگانے کی صدیوں پرانی روایت آج بھی قائم ہے، جس کے تحت روایتی لباس میں ملبوس کچھ لوگ، فانوس اٹھائے ایک بچے کے پیچھے پیچھے چل کر گھر گھر لوگوں کو سحری کیلئے پورا مہینہ بیدار کرتے ہیں۔

مصر ان چند ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں رمضان المبارک کے حوالے سے صدیوں پرانی روایات آج بھی زندہ ہیں، ان میں سب سے نمایاں سحری کے وقت ایک شخص کا لالٹین تھامے گھر گھر جا کر لوگوں کو جگانا شامل ہے، ایک روایت یہ بھی ہے کہ سحری کے وقت ایک شخص ڈرم بجا کر نعت پڑھتا ہے اور اس کے ساتھی گھر گھر دستک دے کر لوگوں کو بیدارکرتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں رمضان کا چاند نظر آتے ہی سائرن بجا کر جبکہ کہیں کہیں گولے داغ کر ماہ مقدس کا اعلان کیا جاتا ہے، دیگر اسلامی ملکوں کے برعکس پاکستان میں عام عمارات پر برقی قمقموں کا رواج تو نہیں ہے تاہم مساجد کو برقی قمقوں سے سجا دیا جاتا ہے، بیشتر گھروں میں ماہ رمضان کے دوران ایک دوسرے کے گھر افطاری میں پکوان بھیجنے کی قدیم روایت بھی چلی آ رہی ہے۔

بوسنیا کے شہر سارا جیو کے باسی ’’سکائی لینٹرن‘‘ (غبارے کی مانند ایک طرح کا روشن پتنگ) اڑا کر ماہ مقدس کا استقبال کرتے ہیں۔

اردن کے دارالحکومت عمان میں ہر سال رمضان میں مارکیٹوں کو خوب سجایا جاتا ہے اور ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔