تازہ اسپیشل فیچر

23 اپریل: کتابوں کا عالمی دن

لاہور: (اختر سردار چودھری) کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے مگر افسوس کہ آج کے جدید دور میں کتاب کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے، اس موبائل فون کی بدولت ہم اپنے اچھے دوست اور تنہائی کے بہترین ساتھی سے دور ہو رہے ہیں۔

کتاب ہماری اخلاقی و معاشرتی تربیت کرتی ہے مگر ہماری آج کی نوجوان نسل کتاب سے فائدہ اٹھانے، اس کو پڑھ کر سیکھنے کی بجائے موبائل کی رنگینیوں میں کھو گئی ہے، نئی نسل کو کتاب سے دوستی اور پڑھنے کی طرف راغب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے ’’ریڈرز ہی لیڈرز ہوتے ہیں‘‘، یہ جملہ کتابوں کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، انٹرنیٹ کی وجہ سے لوگوں کے پاس اب کتاب پڑھنے کا وقت نہیں رہا، حالانکہ انسانی شعور کے ارتقاء میں کتابوں نے ہی مرکزی کردار اد ا کیا ہے۔

دنیا جب لکھنے کے فن سے آشنا ہوئی تو شروع میں درختوں کے پتوں، چمڑے اور پتھروں پر الفاظ کشید کر کے کتابیں لکھنے کا کام شروع کیا گیا، جیسے ہی انسانی تہذیب نے ترقی کی ویسے ہی کتاب نے بھی ارتقاء کی منزلیں طے کرنا شروع کر دیں، درختوں کی چھال سے لے کر پرنٹنگ پریس اور پھر ای بکس تک کا سفر جاری ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ’’جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے‘‘ بلکہ جاننے والوں کو دیکھنے والے جبکہ نہ جاننے والوں کو اندھوں سے تشبیہ دی ہے، مجموعی طور پر مسلمان اور خاص طور پر ہم پاکستانی کتاب سے کیوں دور ہوتے جا رہے ہیں، اس کے مختصر اسباب، غربت، بے روزگاری کی وجہ سے عام پاکستانی اسی چکر میں ساری زندگی گزار دیتا ہے۔

ہمارے ہاں ایک عالم کی عزت میں بھی بے پناہ کمی آئی ہے، دوسری طرف صاحب علم بے روزگار ہیں اور علم کی سرپرستی حکومت نہیں کرتی، پھر انفرادی طور پر ہم اتنے بدذوق ہوچکے ہیں کہ عموماً کتابوں کا مطالعہ کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔

ہمارے ہاں کتاب کو فضول سمجھا جاتا ہے، ہمارے گھروں میں لائبریری تو دور کی بات چند کتابیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتیں، ہمارے ہاں کتابیں خریدنے اور پڑھنے والے کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اسے خبطی، کتابی کیڑا، پاگل کہا جاتا ہے، پاکستان میں ایک تو شرح خواندگی کم ہے اور دوسری طرف مہنگائی کی وجہ سے بھی کتاب بینی میں کمی آئی ہے۔

پھر جدید طریقوں کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے استعمال کی وجہ سے بھی کتاب کی اہمیت متاثر ہوئی ہے، اگر موضوع اچھا ہو تو کتاب آج بھی خریدی اور پڑھی جاتی ہے پاکستان میں زیادہ تر کتابیں شاعری کی شائع ہوتی ہیں اور ان کی شاعری بھی اس قابل نہیں ہوتی اس لئے بھی رجحان کم ہے۔

پاکستان میں سنجیدہ موضوعات پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد بھی دیگر ممالک سے کم ہے اور پھر فلسفے، تاریخ، نفسیات اور سائنس پر لکھی گئی کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں، اس کا حل دیگر زبانوں کی کتابوں کے تراجم کی صورت میں نکالا جانا چاہیے، پاکستان میں کتاب سے دوری کے اسباب میں لائبریری کی کمی بنیادی وجہ میں سے ایک ہے۔

پاکستانی معاشرے میں انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث کتابوں کے خریداروں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، پاکستان میں کتاب کا فروغ کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہا، یورپ میں کتاب کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، یہاں پر لوگ دوران سفر، انتظار گاہ میں اور فارغ اوقات میں کتاب پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

پاکستان میں اوّل تو کتابیں لکھنا مشکل ہے، اگر لکھی بھی جائیں تو ان کو پبلش کرنا مشکل ترین مرحلہ ہے، اگر آپ کتاب لکھ کر چھپوالیں تو اسے مفت میں مانگا جاتا ہے، یہ نہیں کہ تھوڑے پیسے خرچ کر کے لکھنے والے کی حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے، 80 فیصد لکھاری اپنی جیب سے کتاب چھپوا کر دوستوں میں بانٹ رہے ہیں۔

پاکستان میں صرف کتابیں لکھ کر گزر اوقات ممکن نہیں ہے، کسی بھی معاشرے ،قوم ،ملک کی ترقی کا دارومدار علم پر ہوتا ہے اور علم کا کتاب پر، تاریخ اس کی گواہ ہے، یونان اور اس کے بعد مسلمانوں کا عروج جب دنیا جہاں سے کتابیں مسلمان خرید رہے تھے اور ان کو ترجمہ کر رہے تھے ، آج آپ دیکھ لیں مغرب میں کتاب دوستی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج مغرب ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔

پاکستان میں گزشتہ 30 برسوں سے کتاب بینی کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے، ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 42 فیصد کتابیں مذہبی، 32 فیصد عام معلومات یا جنرل نالج، 36 فیصد فکشن اور 07 فیصد شاعری کی کتابیں پڑھتے ہیں، کتابوں سے دوری کی وجہ سے نوجوان نسل اپنے اسلامی، سیاسی، مذہبی کلچر اور ادب سے بھی غیر مانوس ہونے لگی ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 23 اپریل کو کتابوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کی شروعات 1616ء میں سپین سے ہوئی، 1995ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل نے 23 اپریل کو ’’ورلڈ بک ڈے‘‘ قرار دے دیا، ہم ایسے دن منانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جن سے قوم کا بھلا ہوتا ہو۔

کتب بینی انسان کے وقت کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاتی ہے بلکہ غم خوار ومددگار ثابت ہوتی ہے، کتاب تنہائی کی بہترین ساتھی ہوتی ہے، جب انسان گردشِ ایام کے ہجوم میں الجھ کر مایوس ہو کر اندھیروں میں کہیں گم ہو جاتا ہے، زندگی کی خوبصورت نعمتوں سے فیض یاب نہیں ہو پاتا تو اس وقت کتاب ہی اندھیروں میں روشنی لے کر امید کی کرن بن کر سامنے آتی ہے اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میں آ جاتا ہے اور اس روشنی میں خود کو سمجھنے لگتا ہے۔

کتب بینی کیلئے ایسے اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے گھروں میں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جس سے گھر کے بچوں سمیت ہر فرد کو مطالعہ کرنے میں دلچسپی ہو کتاب سے دوستی ہو، ماں باپ کو خود مطالعہ کر کے مثال قائم کرنی چاہیے، اپنے حلقہ احباب میں اچھی کتب کا ذکر مطالعہ ، تبصرہ ، تجزیہ کر کے شوق کو اُبھارنا چاہیے۔

ہمارے اشاعتی اداروں کو اب ایک بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ وہ معیاری کتب کے ساتھ ساتھ سستی کتابوں کو شائع کریں، اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری نسل مایوس ہو کر دوبارہ گلوبل ویلج کی چکا چوند میں کہیں گم ہو جائے گی اور اسے ڈھونڈنا مشکل ہوگا۔

اختر سردار چودھری فیچر رائٹر و بلاگر ہیں، انہیں ملکی و غیر ملکی شخصیات اور اہم ایام پر تحریرین لکھنے کا ملکہ حاصل ہے۔