تازہ اسپیشل فیچر

صدقۂ فطر: فضائل و مسائل

لاہور: (مولانا محمد الیاس گھمن) جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں کا یا بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو ایسے مرد و عورت پر صدقہ الفطر ادا کرنا واجب ہے۔

یاد رہے کہ وہ اشیاء جو ضرورت و حاجت کی نہ ہوں بلکہ محض نمود ونمائش کی ہوں یا گھروں میں رکھی ہوئی ہوں اور سارا سال استعمال میں نہ آتی ہوں تو وہ بھی نصاب میں شامل ہوں گی (بدائع الصنائع: ج2ص، 158)۔

حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے فرمایا کہ ’’رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر کو فرض فرمایا جو روزہ داروں کی لغویات اور بیہودہ باتوں سے پاکی ہے اور غریبوں کی پرورش کیلئے ہے، جس نے نماز عید سے پہلے اسے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ ایک صدقہ ہوگا‘‘ (ابودائود :1609)

جو مال اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اللہ کی راہ میں مساکین کو دیا جاتا ہے یا خیر کے کسی کام میں خرچ کیا جاتا ہے اسے صدقہ کہتے ہیں، جو مسلمان اتنا مالدار ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہے یا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں لیکن قرض اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب ہے جتنی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کا مال اور سامان ہے تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ فطر دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو اس صدقہ کو ’’صدقہ فطر‘‘ کہتے ہیں۔

جس طرح مالدار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے اسی طرح اگر عورت مالدار صاحب نصاب ہے یا اس کی ملکیت میں قرضہ اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال وغیرہ ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے مثلاً اس کے پاس زیور ہے جو والدین کی طرف سے ملا ہے یا شوہر نے نصاب کے برابر زیور عورت کو بطور ملکیت دیا ہے یا مہر میں اتنا زیور ملا جو نصاب کے برابر ہے تو عورت کو بھی اپنی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے، اگر شوہر بیوی کی طرف سے ادا کر دے تو ادا ہو جائے گا، جس آدمی پر صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے اس پر اپنے نابالغ لڑکے اور لڑکی کی طرف سے بھی صدقہ فطر دینا واجب ہے۔

صدقہ فطر کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے یعنی جس مستحق کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے ان ہی کو صدقہ فطر دینا بھی جائز ہے اور جس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں اس کو صدقہ فطر دینا بھی جائز نہیں، غریب غیر مسلم لوگوں کو صدقہ فطر دینا جائز ہے، زکوٰۃ دینا جائز نہیں، صدقہ فطر کے مستحق فقراء اور مساکین ہیں لہٰذا عید کی نماز سے پہلے ادا کر دیا جائے بعض لوگ عید کی نماز سے پہلے تقسم نہیں کرتے یہ سنت کے خلاف ہے، فطرانہ کی رقم سے مسجد، مدرسہ، ہسپتال، ہسپتال کی مشینری یا آفس یا راستہ وغیرہ بنانا جائز نہیں ہے۔

صدقہ فطر کس کس کی طرف سے دینا واجب ہے؟
مالدار آدمی کیلئے صدقہ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی نابالغ اولاد اگر مالدار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مالدار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے، بالغ اولاد اگر مالدار ہے تو ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ادا کر دے گا تو صدقہ فطر ادا ہو جائے گا۔

حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے وادی مکہ کے بیچ ایک پکارنے والے کو حکم دیا کہ وہ یہ ندا لگائے کہ صدقہ فطر ہر مسلمان چھوٹے بڑے، مرد و زن، آزاد و غلام، شہری و دیہاتی پر ایک صاع جَو اور ایک صاع کھجور واجب ہے‘‘ (المستدرک: 1492)۔

صدقہ فطر کس وقت واجب ہوتا ہے؟
صدقہ فطر عید الفطر کے دن کی صبح صادق طلوع ہونے کے وقت واجب ہوتا ہے البتہ صدقہ فطر رمضان المبارک میں بھی ادا کرنا درست ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ صدقہ فطر نماز عید کیلئے جانے سے پہلے ادا کیا جائے‘‘(صحیح مسلم: 986)۔

جو شخص فجر کا وقت آنے سے پہلے فوت ہوگیا یا فقیر ہوگیا تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں، جو کافر عید کے دن صبح صادق کے بعد مسلمان ہوا یا جو فقیر صبح صادق کے بعد مالدار ہوا، اس پر صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں، جو بچہ صبح صادق سے پہلے یا صبح صادق کے وقت پیدا ہوا اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا مالدار باپ پر واجب ہے اور جو بچہ یا بچی صبح صادق کے بعد پیدا ہو اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں۔

جن لوگوں نے سفر یا بیماری کی وجہ سے یا ویسے ہی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے روزے نہیں رکھے صدقہ فطر ان پر بھی واجب ہے جب کے وہ کھاتے پیتے صاحب نصاب ہوں۔

صدقہ فطر کن کن چیزوں سے دیا جاسکتا ہے؟
صدقہ فطر میں کشمش، کھجور، جو، گندم، آٹا یا ان چیزوں کی قیمت دی جا سکتی ہے البتہ قیمت دینا زیادہ بہتر ہے تاکہ مستحق آدمی اپنی ضرورت کی چیز خرید سکے، صدقہ فطر دینے میں اپنے غریب رشتہ داروں اور دینی علم کے سیکھنے سکھانے والوں کو مقدم رکھنا افضل ہے (درمختار)۔

حضرت حسنؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے رمضان کے آخر میں بصرے کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اپنے روزوں کا صدقہ نکالو، لوگ کچھ نہ سمجھے تو انہوں نے فرمایا کہ جو یہاں مدینہ منورہ کے رہنے والے ہیں وہ اپنے بھائیوں کے پاس جائیں اور انہیں بتائیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر کو مقرر فرمایا ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا جَو اور نصف صاع گندم ہر آزاد، غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے کی طرف سے۔ جب حضرت علیؓ تشریف لائے اور غلے کی فراوانی دیکھی تو فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں وسعت دی ہے لہٰذا ہر چیز کا ایک صاع رکھ لو‘‘( ابو داؤد، کتاب الزکاۃ، الرقم: 1619)۔

ماں، باپ، دادا، دادی، نانا نانی، بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی کو صدقہ فطر نہیں دیا جا سکتا، اسی طرح بیوی اپنے شوہر کو اور شوہر اپنی بیوی کو بھی صدقہ فطر نہیں دے سکتا (درمختار)، ان رشتہ داروں کے علاوہ جیسے بھائی، بہن، بھتیجا، بھتیجی، بھانجا، بھانجی، چچا، چچی، پھوپھا، پھوپھی، خالہ، خالو، ماموں، ممانی، ساس، سسر، سالہ، بہنوئی، سوتیلی ماں، سوتیلا باپ سب کو صدقہ فطر دینا درست ہے، حضرت فاطمہؓ، حضرت علیؓ، حضرت جعفرؓ، حضرت عقیلؓ اور حضرت عباسؓ کی اولاد کو صدقہ فطر دینا درست نہیں۔

ایک آدمی کا صدقہ فطر کئی فقیروں کو اور کئی آدمیوں کا صدقہ فطر ایک فقیر کو دینا جائز ہے، کسی نوکر خدمت گار امام مسجد مؤذن کو ان کی خدمت کے عوض تنخواہ کے حساب میں صدقہ فطر دینا درست نہیں، جب تک کسی شخص کے صدقہ فطر کے مستحق ہونے کی تحقیق نہ ہوجائے اس وقت تک اس کو صدقہ نہیں دینا چاہیے، اگر بے تحقیق دے دیا پھر معلوم ہوا کہ وہ غریب ہی ہے تب تو ادا ہوگیا نہیں تو دیکھو کہ دل کیا گواہی دیتا ہے، اگر دل اس کے غریب ہونے کی گواہی دے تو ادا ہوگیا ورنہ پھر سے ادا کرے۔

مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔